اسلام آباد( طاہر خلیل) آزاد کشمیر کی سیاست میں مسلم لیگ (ن) فتح کا جشن منارہی ہے اور وزیراعظم نے صحت یابی کے بعد مظفر آباد کے جلسے سے خطاب کرکے اپنی بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ تحریک انصاف نے دو نشستوں کی کامیابی کے ساتھ انتخابی نتائج تسلیم کرلئے جبکہ پیپلز پارٹی نےدو نشستوں کی کامیابی کو بھی قبول نہیں کیا اورانتخابی نتائج مسترد کردئیے ۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج پر ایک دلچسپ تبصرہ فریال تالپور کا ہے جو پی پی پی کی جانب سے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کی نگرانی کررہی تھیں۔ فریال تالپور کا کہناہے کہ بظاہر الیکشن شفاف دکھا کر اندرون خانہ دھاندلی کی گئی۔ محترمہ نے یہ تو نہیں بتایا کہ اندرون خانہ کہاں کیسے اور کب دھاندلی ہوئی کہ انتخابی نتائج بدل گئے؟ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن کو دھاندلی سے بچانے اور اس کی شفافیت کے تمام تقاضے پورے کرنے کیلئےوزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کے موقع پر وزیرداخلہ نے سکیورٹی کی نگرانی کے لئے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ دوہفتے پہلے کیا۔ جب انہیں بتایاگیا کہ اتنی بڑی تعداد میں فوجی دستے دستیاب نہیں ہوں گے جو آزاد کشمیر انتخابات میں ہر پولنگ سٹیشن کی نگرانی کرسکیں تو چوہدری نثار نے اس مسئلے کو حل کرنےکیلئے ذاتی طور پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے رابطہ کیا اورانہیں باور کرایا کہ آزاد کشمیر انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کیلئے فوج کی تعیناتی بہت ضروری ہے۔ اس کیلئےباقاعدہ پالیسی بنائی گئی جس کے تحت فوجی دستے پولنگ سٹیشنز کے اندر اورباہر تعینات کئے گئے۔ منظر نامے کادلچسپ پہلو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور سندھ کی حکومتوں نے آزاد کشمیر انتخابات میں اپنے صوبوں میں قائم پولنگ سٹیشنز پر فوج تعینات کرنے کی مخالفت کی تھی لیکن وزیر داخلہ نے دونوں صوبائی حکومتوں کے موقف سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ فوج تعیناتی کی پالیسی یکساں ہونی چاہیے۔ چوہدری نثار کی وضع کردہ حکمت عملی درست ثابت ہوئی اور آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات شفاف طریقے سے پہلی بار نہایت پرسکون ماحول میں ہوئے کہ کسی فریق کی جانب سے دھاندلی کا شور نہیں مچایاگیا۔ جو جیتے وہ بھی خوش اور جو کامیاب نہ ہوسکے وہ بھی مطمئن اور شکست خورہ عناصر نے سیاسی روایات کے عین مطابق یہ کہہ کر بظاہر الیکشن شفاف تھے لیکن اندرون خانہ دھاندلی کرائی گئی انتخابی نتائج کو قبول کر لیا ہے۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی شفافت نے جمہوریت اور جمہوری اداروں پر لوگوں کے اعتماد کومضبوط کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ انتخابات شفاف ہوئے ، حقیقت تو یہ ہے کہ انتخابی عمل کی شفافیت میں فوج نے اہم کردار ادا کیا اور پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر فوجی دستوں کی تعیناتی کی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی فراست نے انتخابی عمل کی شفافیت کو ممکن بنایا۔رائے دہندگان کو اعتماد دینے کے لئے پولنگ سے ایک روز قبل فوج نے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں فلیگ مارچ کیا۔ پاک فوج کے دستوں کی نگرانی میں بیلٹ پیپرز، بیلٹ بکس اور انتخابی مواد کی پولنگ سٹیشنوں کو ترسیل ممکن بنا ئی گئی تاکہ ریاست بھر میں انتخابی عمل کی مکمل شفافیت کا تاثر ہی نہیں بلکہ اس کی حقیقت کو یقینی بنایا جاسکے۔انتخابی عمل کے لئے پانچ ہزار چارسو ستائیس پولنگ اسٹیشنزمیں آٹھ ہزارچھیالیس پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ،جہاں پر امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لئے پولیس ،ایف سی اور فوج کے سترہ ہزار افسر اور جوان تعینات کئے گئے ۔ دس اضلاع پر مشتمل آزاد کشمیر کی آبادی تقریبا پچا س لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ آزاد کشمیر میں زیادہ تر گوجری اور ہندی زبان بولی جاتی ہے لیکن پنجابی اور پشتو بولنے والی آبادی کی قابل ذکر تعداد بھی موجود ہے۔ آزاد کشمیر میں شرح خواندگی65 فیصد ہے۔ عام طو ر پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو سیاسی جماعت اسلام آباد میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو، کشمیری عوام اسی کو مظفرآباد کا اقتدار بھی سونپ دیتے ہیں اور اگر انتخابات کا موقع نہ ہو تو راتوں رات قانون ساز اسمبلی کے ارکان کی بڑی تعداد مقتدر جماعت کی بیعت کر لیتی ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد آزاد کشمیر کے حوالے سے ایک اچھی روایت قائم کی ہے کہ انہوں نے مظفرآباد حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا تا کہ عوام ان کی کارکردگی جان سکیں۔ آزاد کشمیر کی سیاست آج بھی ذات برادری کی قید سے آزاد نہیں ہوئی لیکن کسی حد تک اب سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے حوالے سے آزاد کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر حاوی ہورہی ہیں جو کشمیر کےخوش آئند مستقبل کا آئینہ دار ہے۔