• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکیہ ایردوان کے دور میں عہدِ رفتہ کی شان و شوکت حاصل کرنے اور دنیا میں سپر قوت بننے کی کوششوںمیں مصروف ہے ۔ ترکیہ نے خطے میں اپنی دھاک بٹھانےکیلئے آرمینیا کے ساتھ مغربی ممالک کے گٹھ جوڑ کو ایسے ناکام بنایا کہ آرمینیا ،جس نےآذربائیجان کی سرزمین بالائی قارا باغ پر قبضہ کر رکھا تھا ،بڑی خاموشی اور اسٹرٹیجی سے اپنے ڈرونز اور فوجی قوت سے اسے آرمینیا کے قبضے سے نہ صرف آزاد کروایابلکہ اسے مجبور بھی کیا کہ وہ بالائی قارا باغ کو آذربائیجان کی سرزمین کے ایک حصے کو طور پر تسلیم کرے ۔ آرمینیا جسےمغربی ممالک اور خاص طور پر فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی ،ترکیہ کی عسکری قوت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بالائی قارا باغ کوآذربائیجان کی سرمین تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ علاوہ ازیں ترکیہ نے لیبیا پر اپنی گرفت قائم کی اور وہاں عرب ممالک کے ساتھ ساتھ فرانس کو ایک بار پھر پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ترکیہ شام میں روس ایران گٹھ جوڑ اور امریکہ اور کردوں کے گٹھ جوڑ اور شامی پناہ گزینوںکی ترکیہ میںپناہ کی وجہ سے جن مشکلات میں گھرا ہوا تھا وہاں سے بھی نکلنے میں نہ صرف کامیاب ہوگیا بلکہ اس نے اپنے ہمسایہ ملک ایران اور روس کی شام پر مکمل گرفت کو نہ صرف ختم کیا بلکہ سلطنتِ عثمانیہ کے بعد پہلی بار شام میں اپنے لیے راہ ہموار کرلی ۔

ترکیہ اپنی فوجی قوت کے بل بوتے پر خطے میں سپر طاقت کے طور پر ابھر رہا ہےخطے میںبیک وقت متعددقوتوں کا نہ صرف مقابلہ کرتا چلاآرہا ہے بلکہ ان تمام قوتوں کو شام میں پس قدمی پر بھی مجبور کردیا ہے۔ترکیہ نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پراہم کردارادا کرنے والے ملک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔ اس نے یوکرین – روس جنگ کے دوران اور خاص طور پر غلے کی عالمی منڈیو ں تک رسائی کے لیے جو اقدامات کیے ہیں اقوام متحدہ ہی نے نہیں بلکہ روس ، یوکرین اور امریکہ تک نے ترکیہ کے اس رول کی دل کھول کر تعریف کی ہے جس سےعالمی سطح پر ترکیہ کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔

شام میں ترکیہ کا جارحانہ انداز اور غزہ پر اس کا مضبوط موقف مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو کے اسکے عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔27نومبر کو شروع ہو کر 8 دسمبر کو برپا ہونیوالے شام کے انقلاب میں ترکیہ کے کردار کے بارے میں امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ نےترکیہ اورصدر ایردوان کی ذہانت اورخطے میں ان کو حاصل بلند مقام اور گرفت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ’’شام کی کنجی ترکیہ اور ایردوان کے ہاتھوں میں ہے اورامریکہ ترکیہ کے ساتھ مل کر شام کے مسئلے کو لازمی طور پر حل کرلے گا کیونکہ ترکیہ اس مسئلے کو حل کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہےاور خطے میں ترکیہ کے کردار کے بغیر امن ممکن نہیں‘‘۔

صدر ایردوان نے گزشتہ ہفتےترکیہ کی قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے گروپ اجلاس میں پہلی بار شام کے انقلاب پر اپنی خوشی کا اظہار سورۃ الفتح پڑھ کر کیا اور انہوں نے61سالہ بعث پارٹی کی اسد حکومت کے خاتمے پر رب کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ’’میں اپنے شامی بھائیوں کو دل کی گہرائیوں سے فتح پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت کہ 13 سالہ بغاوت کو 12 دنوں میں فتح کا تاج پہنایا گیا جو بہت بڑی کامیابی ہے ۔ ایردوان نےاس موقع پر اسد کے ساتھ ملاقات کی پیشکش کو دہرایا اور کہا کہ اسد نے جواب دینے کی ضرورت تک محسوس نہ کی اور اب اسدکا شام میں نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ۔

صدر ایردوان نے علاقے میں موجود دہشت گرد تنظیموں جن میں ترکیہ کے خلاف برسر پیکار دہشت گرد تنظیم پی کے کے اور وائی پی جی پیش پیش ہیں کو وارننگ دیتے ہوئے کہاہے کہ علیحدگی پسند مجرم یا تو اپنے ہتھیاروں کو الوداع کہہ دیں گے یا اپنے ہتھیاروں کے ساتھ شامی سرزمین میں دفن کر دیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے امریکہ کے وزیر خارجہ انتونی بلنکن سے ٹیلی فون پربات چیت کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ آئندہ شام میں امریکہ کی پشت پناہی کرنے والی ان دہشت گرد تنظیموں کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور نہ ترکیہ اس کی اجازت دے گا۔

صدر ایردوان نے اپنے خطاب میں بعث حکومت کی تباہی کے بعد نئے شام کی تعمیرنوکیلئے بین الاقوامی امدادی فنڈ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دنیا بالخصوص عرب ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ آگے بڑھیں اور شام کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ڈالیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، اسد کے جبر اور شام میں جنگ سے ہونے والی تباہی کی کل قیمت 500 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ جنگ زدہ شام کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ عالمی برادری کی حمایت کے بغیر اتنا بوجھ خود اٹھاسکے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ جس طرح ہم نے اپنے شامی بھائیوں کو 13 سال تک تنہا نہیں چھوڑا اسی طرح اب سے ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ان کا مکمل ساتھ دیں ۔ انہوں نے شام کے نئے رہنما احمد الشرع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انقلابی سے سیاستدان بننے میں حیران کن کارکردگی دکھائی ہے اور انہوں نے ملک کو بڑے احسن طریقے سےمنظم کیا اور اعتدال پسند اور تعمیری پیغامات دیتے ہوئےسب لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ ترکیہ شام کو توانائی سے لیکر نقل و حمل تک، شہری منصوبہ بندی سے لیکر تعلیم اور صحت تک، سلامتی سے لیکر تجارت تک ہر شعبے میں مدد دےگا۔ صدر ایردوان نےشامی پناہ گزینوں کی واپسی کے بارے میں کہا ہے کہ ہم کسی کو زبردستی شام نہیں بھجوائیں گے جو شامی باشندے ترکیہ میں رہ کر ترکیہ کی اقتصادی، علمی، سائنسی اور تجارتی زندگی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں وہ ترکیہ میں قیام کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین