• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معتبر حلقوں میں یہ خبریں تواتر کے ساتھ گردش کر رہی ہیں کہ افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت کو یہ مشورہ نما حکم دیا ہے کہ وہ یا تو کیمپوں میں قیام کرے اور افغان طالبان ان کے معاملات پر نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے ان کی حکمت عملی تیار کر سکیں یا کالعدم ٹی ٹی پی بھی افغان طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قبضہ کرنے کی کوشش کرے جس کو افغان طالبان کی مکمل حمایت حاصل ہوگی ، کالعدم ٹی ٹی پی نے دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور افغان طالبان نے ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ صورت حال اس حد تک مخدوش کیوں ہو گئی ہے کہ پاکستان کو افغان علاقوں پر فضائی کارروائی کرنا پڑی اور افغان طالبان بھی کھل کر سامنے آگئے ؟ اگر ہم موجودہ صورتحال کا صرف افغان طالبان یا افغانستان میں سوویت یونین کی فوج کے داخل ہونے کے وقت سے جائزہ لیں تو ہم اس مسئلہ کی حقیقی کیفیت کو سمجھ نہیں سکیں گے ۔ یہ مسئلہ صرف سوویت یونین کی افغانستان میں آمد کے وقت پیدا نہیں ہوا ۔ اس صورت حال کا ایک تاریخی تسلسل ہے اور اس وقت بھی حملہ آور جو افغان علاقوں کی جانب سے ہی آ رہا تھا اس کے ایک ہاتھ میں مذہب کا جھنڈا تھا مگر پھر برصغیرکے برطانوی نو آبادیاتی بننے کی وجہ سے ایسی سلطنت کے خلاف جس میں سورج نہ غروب ہوتا ہو یہ حملے تھم گئے مگر اس کی خواہش دلوں میں مچلتی رہی اور اسی وجہ سے قیام پاکستان کے وقت جو ملک پاکستان کے خلاف متحرک ہوا اس کا نام افغانستان تھا ۔ پختونستان کا شوشہ اٹھایا گیا کہ جس کا مطلب یہ تھا کہ بین الاقوامی سرحدوں کے تصورات قائم ہونے کے دور سے قبل کے زمانوں کے معاہدات کی بنیاد پر شرارت شروع کر دی جائے ۔

ظاہر شاہ حکومت نے اس کی کھل کر پشت پناہی کی اور جب ظاہر شاہ نے اپنے کزن سردار داؤد کو وزارتِ عظمیٰ کی خلعت 1953ءمیں پہنا دی تو ان سرگرمیوں میں مزید تیزی آگئی۔ مغربی پاکستان کے صوبے کے اعلان کے رد عمل کے طور پر سردار داؤد کی حمایت سے 1955ءمیں کابل میں پاکستانی سفارت خانہ اور جلال آباد و قندھار میں کام کرنے والے پاکستانی قونصلیٹس پر حملے کئے گئے ، پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی سفارت کار جان سے گئے اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد افغانستان میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے افغان فوج کو موبیلائز کرنے کا حکم دے دیا گیا اور پھر1960ءمیں باجوڑ کی جانب سے افغان فوج اور اسی طرح کے غیر فوجی مسلح افراد نے ہزاروں کی تعداد میں پاکستان پر حملہ کردیا جو کوئی ایک سال تک جاری رہا۔ 1961 میں سابقہ یوگو سلاویہ میں غیرجانبدار ممالک کی تنظیم کا پہلا سربراہی اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں سردار داؤد نے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا کہ پختونستان شوشہ وہاں زیر بحث آ جائے مگر انڈیا کے علاوہ کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اور یہ صرف سردار داؤد کا ذہن نہیں تھا ۔ وہ بطور وزیر اعظم 1963 میں علیحدہ ہوگئے مگر جب امریکہ کے نائب صدر سپائرو اگينو نے 1970 میں افغانستان کا دورہ کیا اور اس پر رپورٹ ہنری کسنجر نے صدر نکسن کو ’’میمورنڈم فور دی پریذیڈنٹ پرائیویٹ كنورسیشن ود کنگ اینڈ پرائم منسٹر‘‘ کے نام سے دی تو اس رپورٹ کے مطابق بھی ظاہر شاہ کے نزدیک پاکستان سب سے بڑا تشویشناک مسئلہ تھا۔ یہ دور سوویت یونین کے داخلے سے قبل کا ہے۔ ہمیں یہ اچھی طرح سے جان لینا چاہئے کہ کابل میں کوئی بھی حکومت ہو اس کا سوچ ایک سی ہوتی ہے۔ جب ملا عمر برسر اقتدار تھے تو اس وقت ڈیورنڈ لائن پر پاکستان نے بات کرنا چاہی جو انہوں نے ٹھکرادی بلکہ پاکستان کی اس شکایت کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی تھی کہ افغانستان کی جانب سے دہشت گرد پاکستان آ کر قتل و غارت گری کر رہے ہیں حالاں کہ یہ شکایت اس وقت بھی پاکستان اعلیٰ ترین سطح پر کررہا تھا اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی گفتگو ہو یا اس وقت نواز شریف کی بطور وزیر اعظم آخری پریس کانفرنس سب میں اس کا ریکارڈ مل جائے گا۔ جب اس وقت انہوں نے ہماری شکایات کے ازالے کی بجائے انکی پشت پناہی کی تھی تو یہ کیسے تصور کر لیا گیا تھا کہ اب وہ ایسا نہیں کریں گے؟ پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ 2021ءمیں ان لوگوں کو واپس لانے کی پالیسی اختیار کی گئی اور اس وقت کے وزیر اعظم اور انکے لانے والوں نے افغانستان اور افغان طالبان کے ماضی کو سرے سے کوئی اہمیت نہیں دی کیوں کہ وہ تو کابل میں چائے پی کر اپنی فتح ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ اسی زمانے میں ایک امریکی سفارت کار دوست نے کہا تھا کہ یہ چائے کی پیالی پی کر ہمارے ان دعووں کو درست ثابت کر رہے ہیں کہ جو پاکستان کے حوالے سے کئے جاتے تھے اور اس سے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا امیج خراب ہوا ہے آخر چائے پینے کی اتنی جلدی کیا تھی ؟ میرا جواب تھا شہرت کی طلب۔ اس چائے کی یہ قیمت ادا کرنی پڑی کہ اب افغان طالبان پاک افغان سرحد کو فرضی یا خیالی لکیر قرار دے رہے ہیں اور انکے وزیر اطلاعات پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو اپنا مہمان قرار دے رہے ہیں۔ کوئی ایک ماہ قبل اعلیٰ سطح کے انڈین وفد کی ملا یعقوب، ملا متقی سے ملاقاتوں کے بعد افغان طالبان کے حوصلے اور بھی بلند ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کو افغان پالیسی از سر نو تاریخی تناظر و تسلسل کو مد نظر رکھ کر تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور اس میں سے ہی راستہ نکالنا مقصد ہونا چاہئے جو کہ ممکن بھی ہے۔

تازہ ترین