• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز کی نئی پرواز، ’’اُڑان پاکستان‘‘، کیا سیاسی استحکام کے بغیر یہ اڑان ممکن ہے؟انہونی ہی ہوگی۔ جوش خطابت میں وزیراعظم نے اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کو تاریخی اور مثالی بتایا۔ حضور ! فریق ثانی کا متفق ہونا ضروری ہے ۔ آج تک تو فریق ثانی نے جب بھی وارات ڈالی فریق اوّل کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ وطن عزیز جس گھمبیر سیاسی عدم استحکام کی گرفت میں ہے کوئی معجزہ ہی اس بحران میں شہباز اُڑان کو اوج ثریا پہنچائے گا۔

بلاشبہ! 26 ویں آئینی ترمیم پر ہفتوں پہلے حکومت، اتحادی، اپوزیشن مع تحریک انصاف (سمیت عمران خان) باجماعت نمایاں نکات پر اتفاق رائے کرچکے ہونگے۔ اب بھی عقیدہ یہی کہ جاری و ساری مذاکرات کا انعقاد 26ویں آئینی ترمیم کی کامیابی کا مرہون منت ہے۔ قرینِ قیاس! اہم نکات پر اتفاق رائے شاید مذاکرات سے پہلے سے موجود ہو۔ عمران خان ایسا لاینحل مسئلہ نہیں تھا، ہماری مقتدرہ نے محنت سےاسے ہیرو بنا ڈالا۔ وائے نصیب!آج مملکت، حکومت، اپوزیشن ، ادارہ سب بند گلی میں ہیں۔ وطن شدید سیاسی بحران میں ، حیف !’’جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو ساراجانے ہے‘‘۔چند سال پہلے مقتدرہ نے ایک غیر مقبول وزیراعظم کو ٹھکانے لگانے کا جب فیصلہ کیا تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ’’ نہ اُگلے بن پڑے نہ نگلے‘‘۔ خوش قسمتی ! عمران خان سیاسی عقل ودانش سے کوسوں دورہے۔ 7دہائیوں سے نظام کا جوڑ توڑ کثرت سے معمول رہا، زعم کہ مہارت ہے۔ جب تک طاقت اپنا کام دکھاتی رہی، کامیابی ملی۔ زعم ڈھیر جب رائے عامہ کثیر تعداد میں با آوازِ بلند مخالف ہو گئی۔کیا مضائقہ کہ ہر ایسے موقع پر اپنی سیاسی جوڑ توڑ کی بے تربیتی کاجائزہ لیا جاتا۔حالات سے نبرد آزما ہونے کی بہتر صلاحیت ہوتی۔

آج کا بحران ، پچھلے 3 سال کے غلط سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ، باجماعت بھگت رہے ہیں ۔ جنرل ندیم انجم نے 27اکتوبر2022کو غیرمعمولی پریس کانفرنس سے میں یہ سمجھ پایا کہ گویا’’عمران خان سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ جنوری 2021ء میں کرلیا تھا۔ جو اگلے 17/18سال تک نافذ العمل رہیگا‘‘، اگرچہ انکے الفاظ مختلف تھے۔ اس فیصلہ کی روشنی میں 8 مارچ 2022ءکو سترہ جماعتیں ، جنرل باجوہ کے اشارہ ابرو پر تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔تحریک عدم اعتماد نے عمران کی مردہ سیاست میں جان ڈال دی۔ اِدھر تحریک کامیاب اُدھر اپوزیشن سیاست خصوصا’’ ن لیگ‘‘غیرمتعلقہ ہوگئی ۔ ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ کہ اسٹیبلشمنٹ بشمول 17 سیاسی جماعتیں حکومت میں، جبکہ اپوزیشن اکیلے عمران خان کے پاس، چشم تصور میں تحریک کی کامیابی پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی تھی۔ دوسری طرف باجوہ/فیض پلان، اندھا دھند نگران حکومت کے قیام کیلئے کوشاں، اپنے ادارے کو بھی اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ معلوم کرنا ہے، کیا عمران نے کشمیر فتح کیا؟ کیا 2018پارٹی کا منشور پورا کیا ؟ کیا بدترین طرز حکومت یا کرپشن اور ناہلی کے ریکارڈ نہ بنائے ؟ صاف ظاہر ! اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں ہی نے مارچ 2022ء کے زیرو کو 2024ءکاہیرو بنا ڈالا۔

عمران خان کاکریڈٹ کہ وعدہ خلافی، بدترین حکومتی کارکردگی، سیاسی فیصلہ سازی و حکمت عملی صفر جبکہ صداقت ، دیانت، اخلاق، عقائد پر داغ دھبے، ایسے اوصاف حمیدہ کیساتھ ملکی سیاست کا بے تاج بادشاہ بننے میں کامیاب ہوا ۔اگرچہ عقل کے کسی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا، موصوف کی مقبولیت کا سارا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ کو دینا ہوگا۔ وگرنہ بچی کھچی مقبولیت دورانِ اقتدار برف کی طرح پگھل چکی تھی۔ جنرل باجوہ اپنی دوسری توسیع کیلئے نتائج سے بے خبر ، مقبول عمران خان کو حکومت کیخلاف استعمال کیا۔ باجوہ خود بھی ڈوبااور عمران مخالف تمام سیاسی جماعتوں کو بھی ڈبو گیا۔ تاریخ پاکستان میں پہلی دفعہ جب ساری سیاسی جماعتیں اقتدار میں، اپوزیشن کیSLOT اکلوتے عمران کومنتقل ہو گئی۔ اپنے تئیں منت ترلے کیے کہ نہ لائی جائے، نقار خانہ میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ آج عفریت نے وسیع و عریض تعداد میں خلقِ خدا کو پیچھے لگا کر پورے نظام کو بے دم کر رکھا ہے۔

خوش آئند کہ مذاکرات کا عمل شروع ہے۔ خیال ہے کہ اہم معاملات پر اتفاق رائے ہو چکا ہوگا۔ اگر عمران خان کو ریلیف Forgiveness Without Confession'' '' ملا تو کھایا پیا کچھ نہیں گلاس ٹوٹا بارہ آنے۔ جو پارٹی مجموعہ اضداد ہو، اندونی خلفشار کا شکار ہو ، لیڈرمیں ایک گُن نہ ہو وہ دن دہاڑے عوام الناس کو اپنے پیچھے لگائے تو عمران خان جنگ جیت چکا؟ کُلی کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ کو ، جنرل فیض حمید نے آسرا دیا کہ ہمت نہ ہارنا، فوج تمہارے ساتھ ہے، بغاوت ہو جائیگی، 9 مئی کر ڈالا۔ پھر عدلیہ سے پیغام ملا کہ’’گڈ ٹو سی یو ‘‘تو جسٹس منصور علی شاہ سے اُمیدیں باندھ لیں، انکو بھی متنازع بنوا ڈالا۔ نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے نیا جوش و ولولہ دیا، جلد ادراک ہو گیا کہ بیکار کی اُمید ہے۔ چنانچہ اب سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیلئے منت ترلے، کہاں گیا موقف کہ انکے ساتھ کبھی نہیں بیٹھوں گا۔ یقینا ًوقت ایک سا نہیں رہتا۔ اگر عمران مذاکرات میں کسی قسم کا ریلیف لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سمجھیں کہ مقتدرہ ایک اور داؤ ہارنے کو ہے۔ کیا مقتدرہ ایسی ہار بھی پسند فرمائے گی کہ جیت عمران کی لٹیا ڈبو جائے ۔ تو پھر اقتدار دینے میں حرج نہیں کہ جس واردات سے عمران کا نام و نشان مٹانے کا عزم دکھایا، وہی عمران خان کے حق میں گیا ۔ اب عمران کو اقتدار میں لا کر انجام تک پہنچانا ہوگا ۔ وگرنہ ہر ترکیب کے بعد ’’درد اور بڑھ گیا‘‘۔

شذرہ ! پچھلی جمعرات کو کالم پر کام کر رہا تھا کہ حسان خان کی10سال کی سزا سُن کر دل پژمردہ ہو گیا ، کالم چھوڑنا پڑا ۔ نہیں معلوم کہ ایسی سزاوں سے ڈرانا دھمکانا تھا یا کچھ اور ۔ قطع نظر کہ کسی بھی منصوبہ بندی ، جلاؤ گھیراؤ ، توڑ پھوڑ میں ملوث نہ تھے ، اگر اُن کو قرار واقعی سزا ملتی تو فائدہ رہتا ، مگر یہ نہ ہو سکا ۔ افسوس ، کئی ایسے جن کیخلاف جلاؤ گھیراؤ کے ناقابل تردید ثبوت ، سینکڑوں لوگ عینی شاہد ، کچھ کو 1سال پہلے چھوڑ دیا گیا اور کچھ کو2سال جو چند ماہ بعد رہا ہو جائیں گے ۔ میرے بیٹے حسان خان کو سچ بول کر14سال سزا، الحمدللہ وہ بھی ہمت والا اور مجھے بھی نبردآزما ہونے کی طاقت دے رکھی ہے۔ 20کی رہائی کے بعد آج 20مزید کو رہا کر دیا گیا کہ انکی رحم کی اپیل منظور ہو گئی ۔ مجھے اپنے بیٹے کیلئے رحم نہیں انصاف چاہیے،سانحہ یہ کہ جھوٹ بول کر سزا دلوائی اور آگے بھی جھوٹ کا سہارا لیا جائے گا ۔ اعلیٰ عدالتوں میں پول کھل جائیگا اور آخری کہ سزاؤں سے ایک عمل بار بار دُہرایا گیا ، بجائے عمران خان کی سیاست ہلکان ہوتی حسب معمول اس عمل سے بھی اسکے ماننے چاہنے والوں کا جذبہ حریت اور آگے ، نیٹ رزلٹ ، عمران خان کو فائدہ کہ آج بدقسمتی سے عوام الناس کا ہیرو جبکہ اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی سے مطعون، اس پہلو سے پہلو تہی ایسے حالات میں مجرمانہ غفلت ہے ۔

تازہ ترین