• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری معلومات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو وزارت خارجہ سے استعفیٰ دینے کے بعد نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) میں شامل ہونا چاہتے تھے مشرقی پاکستان سے ممبر قومی اسمبلی مسیح الرحمان نیپ کے سیکرٹری جنرل تھے وہ دوستی کی بنیاد پر بھٹو کیلئے پارٹی عہدہ چھوڑنے پر تیار تھے۔ لیکن نیپ مغربی پاکستان کی لیڈر شپ کا کہنا تھا کہ نیپ کے آئین کے مطابق بھٹو کو دو سال ممبر رہنے کے بعد سیکرٹری جنرل منتخب کیا جا سکتا ہے۔ بھٹو جلدی میں تھے وہ اس رکاوٹ کی وجہ سے مایوس ہو گئے۔ اس دوران کراچی سے سوشلسٹ اسٹوڈنٹ لیڈر معراج محمد خان، لاہور سے بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے ڈاکٹر مبشر حسن اور محمد حنیف رامے دونوں لاہور کے ایک انڈپینڈنٹ ترقی پسند اکیڈمک تھنک گروپ سے وابستہ تھے دنیا بھر میں بائیں بازو کی ہوائیں چل رہی تھیں۔ انکے نزدیک پاکستان میں بھی سوشلسٹ تبدیلی کیلئے سیاسی ہیرو کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے مجھے ایک موقع پر بتایا تھا کہ میں نے اور حنیف رامے نے انڈیپنڈنٹ گروپ کے مرتب کئے گئے پیپرز کو مجوزہ پارٹی کے منشور میں شامل کر دیا تھا۔ اپنے ایک وی لاگ میں بتایا کہ میں نے 70کلفٹن کراچی ملاقات میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے تھنک ٹینک گروپ لاہور کے تیار کئے گئے پیپرز پیش کیے جنہیں بھٹو نے منظور کر کے مجوزہ پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کا حصہ بنا لیا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ راولپنڈی کے رہنما خورشید حسن میر کا کہنا تھا کہ مجوزہ پارٹی کا نام پاکستان پیپلزپارٹی میں نے تجویز کیا تھا۔30 نومبر اور یکم دسمبر 1967ء کو ڈاکٹر مبشرحسن کی رہائش گاہ 4کے گلبرگ III لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت میں دو روزہ کنونشن منعقد کیا گیا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، چار نکات ’’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ پر مشتمل منشور جاری کیا گیا اور بھٹو کو متفقہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ لیکن پی پی پی کا دستور نہیں بنایا گیا اور نہ ہی اس کیلئے کوئی کمیٹی بنائی گئی، اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام تنظیمی اختیارات چیئرمین بھٹو کو تفویض کر دیے گئے تھے۔ پی پی پی ’جمہوریت ہماری سیاست کا منشور رکھنے والی‘ تنظیم الیکشن کے جمہوری عمل کی بجائے اوپر سے نیچے تک مسلسل نامزدگی کے اصول پر چلائی جاتی رہی جسکی وجہ سے پی پی پی سیاسی بیورو کریسی کے انداز میں منظم ہوتی چلی گئی جسکا رولز اینڈ ریگولیشنز اور منظم مالیاتی نظام نہیں تھا۔ جس کے باعث پیپلز پارٹی کا منشور شخصیت پرستی کے سحر میں سمٹ کر رہ گیا۔ نظریاتی وابستگی کے حوالے سے پی پی پی پنجاب کے پہلے صدر شیخ محمد رشید کے قریب ہونے کی وجہ سے مجھے پنجاب میں پارٹی تنظیم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا خود میں نے پی پی پی کے ڈسٹرکٹ جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بہاولپور میں نامزدگی کے ذریعے تنظیم سازی کی تھی ابتدا میں چیئرمین بھٹو نے پنجاب میں پارٹی تنظیم سازی کیلئے ملک حامد سرفراز کو ذمہ داری سونپی تھی۔ انہوں نے ابتدائی طور پر پنجاب میں تنظیم سازی کیلئے پانچ لاکھ روپے فنڈز طلب کئے 'بھٹو بنیادی طور پرسخت کفایت شعار تھے' بھٹو نے قریب موجود شیخ محمد رشید جو مسلم لیگ، بائیں بازو کی سیاست اور کسان سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے تھے سے تنظیم پر اٹھنے والے اخراجات کے تخمینے بارے دریافت کیا جس پر شیخ رشید کا موقف تھا کہ بھٹو کی سحر انگیز لیڈر شپ اور پی پی پی کا سوشلزم منشور رکھنے کی وجہ سے لوگ خود اپنے خرچے سے رضاکارانہ طور پر پارٹی بنائیں گے جس پر چیئرمین بھٹو نے ملک حامد سرفراز کی بجائے شیخ محمد رشید کو پنجاب اور بہاولپور ڈویژن کا صدر مقرر کر دیا۔ کمیونسٹ چین کے انڈیا مخالف ہونے کے حوالے سے پنجاب کے عوام متاثر تھے پی پی پی پہلی پارٹی تھی جس نے ہر سطح پر پارٹی تنظیم کے سربراہ کیلئے صدر کی بجائے چیئرمین کا نام اختیار کیا۔ ایوبی دور کے بلدیاتی اداروں کے سربراہ چیئرمین کہلاتے تھے جن پر بالائی اور درمیانہ طبقہ کے افراد منتخب ہو کر چیئرمین بنتے تھے اس حوالے سے غریب طبقے میں چیئرمین کا لفظ پرکشش بن گیا، عوام میں پھیلی اس سیاسی نفسیات نے پارٹی کی تنظیم سازی میں خوب کردار ادا کیا جسکی وجہ سے دیہات گائوں محلے کی سطح پر خود کار انداز میں پارٹی منظم ہونا شروع ہو گئی۔ بھٹو اپنی اسٹار ویلیو کے بڑے حامی تھے شیخ محمد رشید ایڈووکیٹ نے 4مزنگ روڑ پر کرایہ پر اپنا آفس بنا رکھا تھا پی پی پنجاب اور بہاولپور کا چیئرمین بننے کے بعد اسی آفس کی بالائی منزل کو پی پی پی پنجاب کا آفس بنا لیا گیا ۔

الیکشن 1970ء میں پہلی بار بھٹو لہر کی وجہ سے پنجاب میں غریب اور متوسط درجے کے بڑی تعداد میں ایم این ایز اور ایم پی ایز منتخب ہو گئے جبکہ سندھ میں پی پی پی کے ٹکٹ پر جاگیر دار طبقے کے امیدوار کم اکثریت میں منتخب ہوئے۔ الیکشن دسمبر 1970ء کے بعد چیئرمین بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل کمیٹی بنائی جس میں میاں محمد افضل وٹو ایڈووکیٹ صدر پی پی پی ڈسٹرکٹ بہاولنگر اور لودھراں سے بیرسٹر تاج محمد خان کو سنٹرل کمیٹی میں شامل کیا، یہ دونوں قومی اسمبلی کے ہارے ہوئے امیدوار تھے۔ میاں افضل وٹو آئیڈلسٹ سوشلسٹ جبکہ بیرسٹر تاج محمد خان سائنٹفک سوشلزم کا رجحان رکھتے تھے۔ بیرسٹر میاں محمود علی قصوری سینئر وائس چیئرمین مخدوم طالب المولا وائس چیئرمین، ریٹائرڈ آئی سی ایس جے اے رحیم سیکرٹری جنرل، ڈاکٹر مبشر حسن سیکرٹری مالیات اور راولپنڈی سازش کیس کے مرکزی کردار میجر جنرل محمد اکبر خان کو پیپلز گارڈ کا سالار انچیف بنایا گیا۔ انہوں نے مجھے کراچی میں ایک ملاقات میں پاکستان سطح پر پیپلز گارڈ فورس منظم کرنے کا ایک پلان پیپر دیا تھا جسے انہوں نے منظوری کیلئے چیئرمین بھٹو کو پیش کر رکھا تھا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو نے کسی اندرونی دبائو پر پیپلز گارڈ کی تنظیم کو توڑ دیا تھا اور افسر شاہی کے کنٹرول میں ایف ایس ایف بنا ڈالی تھی۔پنجاب کی تنظیم کے صدر شیخ محمد رشید ایڈووکیٹ ،جنرل سیکرٹری ملک غلام مصطفیٰ کھر جبکہ ڈاکٹر مبشر حسن لاہور شہر کے صدر بھی تھے، ضیاء بٹ کوپیپلز گارڈ پنجاب کاسالار 'اسٹوڈنٹ لیڈر امان اللہ خان کو پیپلز پارٹی پنجاب کے آفس کا انچارج بنایا گیا جب کہ محمد حنیف رامے سنٹرل کمیٹی اور پرنسپل کمیٹی کے ممبر تھے انہوں نے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام سنبھالا اور اپنے ہفت روزہ نصرت لاہوراور بعد میں پارٹی ترجمان روزنامہ مساوات لاہور کے ذریعے پارٹی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

تازہ ترین