• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور اس کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کا کردار ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی سیاست میں نہ صرف عوام کو ایک نئی سمت دی بلکہ ملک کی دفاعی طاقت کو بھی ناقابل تسخیر بنایا۔ ان کے خلاف سازشوں کا ایک طویل سلسلہ رہا۔ یہ سازشیں نہ صرف انکے سیاسی حریفوں کی جانب سے کی گئیں بلکہ عالمی قوتوں نے بھی انکے ترقی پسند نظریات اور خودمختار پالیسیوں کو خطرہ سمجھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، اور انکا نعرہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ عوام کے دلوں میں ایک امید کی کرن بن گیا۔ بھٹو صاحب کا سیاسی سفر ایک انقلاب تھا، کیونکہ وہ عوام کے مسائل کو سمجھتے تھے اور انکے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ انکی قیادت میں پی پی پی نے ایک ایسی جدوجہد کا آغاز کیا جس کا مقصد پاکستان کو ایک حقیقی عوامی جمہوری ریاست بنانا تھا۔ لیکن یہ بات ملک کے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کے لئے ناقابل قبول تھی۔ چنانچہ ان کی جماعت کو کمزور کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ یہ سازشیں سیاسی میدان میں ان کے حریفوں، اسٹیبلشمنٹ، اور بین الاقوامی طاقتوں کی طرف سے تھیں۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کو ایک مضبوط اور خودمختار ملک بنانے کیلئے کئی اہم اقدامات اٹھائے، جن میں سب سے نمایاں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی کوشش تھی۔ 1974ءمیں، بھارت کے ایٹمی دھماکے کے جواب میں، بھٹو صاحب نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ملک میں لانے کا بندوبست کیا اور پاکستان کو دفاعی طور پر مضبوط بنانے کیلئے ہر ممکن وسائل فراہم کیے۔ بھٹو صاحب کی اس جرات مندانہ حکمت عملی نے نہ صرف بھارت بلکہ مغربی طاقتوں کو بھی پریشان کر دیا۔ بھٹو صاحب نے ایک تاریخی بیان میں کہا تھا، ’ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائینگے‘۔ یہ الفاظ انکے عزم و حوصلے کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ پالیسی بین الاقوامی طاقتوں کو قبول نہیں تھی، اور انکے خلاف مزید سازشیں کی گئیں۔ان سازشوں کا ایک مظاہرہ 1977ءمیں اس وقت دیکھنے میں آیا جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے ختم کر دیا گیااور انکے خلاف ایک متنازعہ مقدمہ چلایا گیا جسکے نتیجے میں انہیں 1979 ءمیں پھانسی دیدی گئی۔ یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے افسوسناک واقعات میں سے ایک ہے۔ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کو آج بھی ایک سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی عناصر ملوث تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان کو ایک نئی شناخت ملی۔ انہوں نے اسلامی دنیا کو متحد کرنے کیلئے 1974ءمیں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا، جو انکی بین الاقوامی سفارتی حکمت عملی کا ایک شاہکار تھا۔ اس کانفرنس میں اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر بھٹو صاحب نے پاکستان کی قیادت کا لوہا منوایا۔ لیکن ان کا یہ اقدام مغربی طاقتوں کو ناپسند تھا، کیونکہ وہ اسلامی دنیا کی یکجہتی کو اپنے مفادات کیلئے خطرہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ بھٹو صاحب کو عالمی سطح پر بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔بھٹو صاحب نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے دفاعی صنعت کو ترقی دی۔ انہوں نے پاکستان میں اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دیا اور ملک کو فوجی سازوسامان میں خود کفیل بنانے کیلئے کئی منصوبے شروع کیے۔ انکی قیادت میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس اور واہ فیکٹری جیسی دفاعی ادارے قائم ہوئے۔انکی حکومت کے دوران، ملک کو اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا تھا، لیکن انہوں نے کبھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا سوچا بھی نہیں۔ انکے خلاف ہونیوالی سازشوں کا مقصد نہ صرف انکی حکومت کا خاتمہ تھا بلکہ پاکستان کو ایک ترقی پسند اور خودمختار ریاست بنانے کی کوششوں کو بھی ناکام بنانا تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنی جان کی قربانی دیکر یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنیوالے رہنما نہیں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قربانی اور ان کی قیادت کے اثرات آج بھی پاکستان کی سیاست اور دفاع میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ انکے بنائے ہوئے ایٹمی پروگرام نے پاکستان کو ایک مضبوط دفاعی طاقت بنایا، اور ان کی سفارتی پالیسیوں نے ملک کو بین الاقوامی سطح پر ایک اہم مقام دلایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت اور پاکستان پیپلز پارٹی کیخلاف ہونیوالی سازشیں ہمارے لئے ایک سبق ہیں کہ حق اور سچائی کے راستے پر چلنے والے رہنماؤں کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان کی قربانیاں ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہتی ہیں اور آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ بنتی ہیں۔

تازہ ترین