• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیلری کلنٹن نے درست ہی کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ساس بہو والے ہیں کچھ لوگ ان تعلقات کو رولر کوسٹر سے بھی تشبیہ دیتے ہیں تیزی سے اوپر اور نیچے جانے والا جھولا کبھی آپ کو پاتال میںلے جاتا ہے اور کبھی آسمان میں اڑاتا ہے۔ صدر بش اور جنرل مشرف دوست تھے ،ریگن اور جنرل ضیاء کی گاڑھی چھنتی تھی، ایوب خان بھی امریکی صدور کے پسندیدہ تھے مگر پھر بائیڈن نے پاکستان کے ساتھ مکمل سرد مہری رکھی، کلنٹن کو بھی غیر جمہوری رویوں اور انتہا پسندانہ کارروائیوں پر تحفظات تھے مگر کلنٹن نے کارگل کی جنگ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کیا۔

یحییٰ خان کے دور میں ہنری کسنجر نے براستہ پاکستان چین کا خفیہ دورہ کیا تھا اب صدر ٹرمپ چند دنوں میں عنان اقتدار سنبھالیں گے۔ ریاست پاکستان اور عوام دونوں مختلف ذہنی توقعات اور تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ہمارے کچھ بھائیوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے آتے ہی پاکستان کی سیاست میں بھونچال آ جائے گا تاج اچھالے جائیں گے اور تخت الٹ جائیں گے سمجھ دار سفارتکار ایسا نہیں سمجھتے ان کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی ترجیحات میں پاکستان کے سیاسی مسائل نہیں ہیں البتہ صدر ٹرمپ انتخابی مہم میں بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ایک ناکام حکمت عملی اور غیر معمولی سرعت سے کیا گیا جس کے امریکہ اور افغانستان دونوں پر برے اثرات پڑے ،ہوسکتا ہے کہ وہ اس انخلا کو وجہ بنا کر افغان اور شدت پسند طالبان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ یہ امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو لگے کہ پاکستان نے طالبان کی درپردہ مدد کی ہے ۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان نے دونوں طرح کے حالات کی تیاری کر لی ہے دونوں طرح کے حالات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اس پر ممکنہ تمام امکانات کا جائزہ لیا گیا ہے ادھر صورتحال سے نمٹنے کی تیاری مکمل ہے۔

ہمارے انصافی بھائی ’’پبابھار‘‘بیٹھے ہیں کہ ادھر ٹرمپ صدارتی گدی پر بیٹھے گا ادھر اڈیالہ جیل کا دروازہ کھل جائے گا دوسری طرف ریاست نے اس صورتحال کے لئے فارن آفس میں اس مشکل وقت کے لئے اپنے ایک سینئر ساتھی سفیر رضوان شیخ کا انتخاب کیا بین الاقوامی طور پر مشکل حالات میں ابھی چند روز پہلے امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں لگائی ہیں اور ساتھ ہی پیغام دیا ہے کہ ان میزائلوں کی پہنچ اور ہدف اب امریکہ بھی ہوسکتا ہے گو یہ بات صریحاً غلط ہے پاکستان نے اپنے اہداف بھارت کی آخری سرحد اور ان کے سمندروں میں موجود ٹھکانوں تک ضرور رکھے ہیں مگر اس سے امریکہ تک پہنچنے والی بات پر اصرار سے لگتا ہے کہ پاکستان اور چین کی قربت سے امریکی کڑواہٹ کا شکار ہیں۔ پاکستان بھی اتنا بھولا نہیں کہ بین الاقوامی چالیں نہ سمجھے ایک طرف پاکستان کو فوجی چھائونی سٹیٹ یا عسکری اور جنگی ریاست کہا جا رہا ہے دوسری طرف اس کے میزائل پروگرام کے نام پر پاکستان کے سرکاری اداروں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

اندازہ ہے کہ اول تو بہت جلدی ٹرمپ عمران کا معاملہ نہیں اٹھائیں گے لیکن اگر اٹھ گیا تو پھر صدر ٹرمپ کی طبیعت کے مطابق تجارتی لین دین کی بات ہوسکتی ہے صدر ٹرمپ کو خود ٹرانزیکشن ڈیلز بہت پسند ہیں اگر ان کی رہائی ہوگی تو پاکستان کو کیا ملے گا۔ 10ارب ڈالر، مفت تیل یا اور کیا سہولتیں؟

نواز شریف کے جدہ جانے کے بدلے سعودی عرب نے پاکستان کو مفت تیل اور کئی مراعات دی تھیں اب امریکہ کیا دے گا؟ فرض کریں امریکہ تجارتی ڈیل کی بجائے بازو مروڑتا ہے معاشی قرضوں اور بیرونی آمدن کو روکتا ہے تو موجودہ حکمران اس بیانیے کو اپنی مقبولیت کے لئے استعمال کریں گے ابھی سے یہ تھیوری پھیل چکی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل عمران خان کی مدد سے پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ یعنی نیوکلیئر پروگرام چھیننا چاہتے ہیں۔ یہ بیانیہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ طالبان، امریکہ کی خفیہ اور ظاہری امداد پر ہی چل رہے ہیں ہر ماہ انہیں ایک خصوصی جہاز میں ڈالر پہنچائے جاتے ہیں طالبان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے پیچھے بھی دراصل امریکہ ہی ہے جو طالبان کو پال کر پاکستان سے امریکی ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم دنیا میں صدر ٹرمپ کے سب سے قریبی ساتھی سعودی شاہی ولی عہد محمد بن سلمان کا ریاست پاکستان سے گہرا تعلق ہے اندازہ ہے کہ پاکستان نے اپنی سیاسی مشکل کا اظہار ان سے بھی کیا ہوگا اور وہ پاکستان کی اس سفارش کو ٹھکرا نہیں سکے ہوں گے گویا پاکستان نہ بھوٹان ، نہ عراق اور نہ ہی کینیڈا بننے پر تیار ہے کیوبا جیسے دانت اور جنوبی کوریا جیسی مسکراہٹ دونوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔

سب سکے نہیں چلتےتو آخری حربہ چین او رروس سے رجوع کرنا ہوگا۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک، ایٹمی صلاحیت کے حساب سے ساتواں اہم ملک، میزائل کے حوالے سے واحد اسلامی ملک، منظم فوج کے اعتبار سے تیسرا یا دوسرا بڑا ملک اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے 57 اسلامی ممالک میں واحد جہاں جمہوریت، آئین ، آزادی اور مساوات کی ہر وقت جدوجہد جاری رہتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کسی کا تر نوالہ نہیں ہے اور نہ پاکستان کسی کو ٹارگٹ کر رہا ہے جیو اور جینے دو کے تحت معاملات ہوں تو نہ پاکستان کو گزند آئے گی اور نہ امریکہ کو ذرا سی آنچ بھی لگے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا تب بھی افغانستان سے سہ جہتی حکمت عملی کے تحت نمٹا جائے گا طالبان کے مخالف ہمارے ساتھ آنے کو بے چین ہیں انہیں سبز جھنڈی دکھائی جا سکتی ہے جب چاہیں ان کے معاشی اور مالی معاملات میں رخنہ ڈالا جا سکتا ہے اور معاملہ حد سے بڑھا تو پھر محبت اور جنگ میں فاصلے بھی مٹ سکتے ہیں۔

تازہ ترین