• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اکثر لوگ مجھے پوچھتے ہیں کہ آپ نے ربع صدی مجید نظامی صاحب کے ساتھ نوائے وقت میں گزاری اور ہمیشہ ان کی تعریف ہی کی، دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ وہ ’’کالم شناس‘‘ تھے۔ میرے کالم میں کبھی کبھار ایک آدھ جملے کا اضافہ کر دیتے اور اس روز لوگ اس جملے کی تعریف کرتے اور مجال ہے کہ میں کبھی کہتا کہ یہ جملہ مجید نظامی صاحب کا ہے،سو میں آداب عرض کے ساتھ شکریہ ادا کرتا اور مجید صاحب کی بجائے میں کہتا ’’ بس یہ اللہ کی دین ہے‘‘۔ میں ان سے اور وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، وہ میری شادی میں بھی شریک ہوئے۔ ایک دفعہ ایوب خان کے دور کی لاٹھیوںمیں اتنا اضافہ ہوا کہ بستر سے لگ کر رہ گیا۔ مجید صاحب عیادت کےلئے میرے گھر آئے اور کہا آپ آئندہ موٹر سائیکل نہیں چلائیں گے، میں آپ کے لئے کار کی منظوری دے رہا ہوںاور پھر میں ’’صاحب کار‘‘ ہوگیا۔ اور پورے نوائے وقت میں یہ عنایت صرف میرے لئے تھی۔ میں ان کی یہ محبتیں کبھی فراموش نہیں کروں گا۔ چنانچہ اس پس منظر میں لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ اگر صورتحال یہ تھی تو پھر ان کا ساتھ کیوں چھوڑا۔ معاملہ یہ تھا کہ سال میں ایک آدھ بار انہیں میرا کوئی کالم اگر پسند نہ آتا تو وہ اس پر لکھتے ’’قاسمی صاحب کوئی اور کالم لکھ دیں‘‘ اور اس سلسلے میں میری انا کا بھی اتنا خیال رکھتے کہ کالم ایک لفافے میں بند کرکے اس پر ٹیپ لگاتے اور نائب قاصد کے ہاتھ مجھے بھیج دیتے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ میرا کالم کوئی رد بھی ہو سکتا ہے۔ ایک دن میں اطہر عباس(مرحوم)کے کمرے میں بیٹھا ان سے خوش گپیوں میں مشغول تھا کہ نائب قاصد آیا، اس روز اس نے میرا کالم جو کسی لفافے میں بند نہیں تھا مجھے تھمایا اور میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، اس پر لکھاتھا قاسمی صاحب یہ آپ نے کیا انٹ شنٹ لکھ بھیجا ہے۔یہ شرفالوجی نوائے وقت میں نہیں چلے گی۔ یہ پڑھ کر میں نے بوجھل دل کے ساتھ سیڑھیوں کا رخ کیا جن پر میں بیک وقت دو دو اسٹیپس کے ساتھ چڑھا اور اترا کرتا تھا، کبھی لفٹ استعمال نہیں کی تھی مگر اس روز میں نے پوری احتیاط سے ایک ایک اسٹیپ پر قدم رکھا، وہاں کچھ دیر رکھتا اور پھر اگلا قدم اٹھاتاہوا گھر کو روانہ ہوگیا۔گھر پہنچ کر میں نے مجید صاحب کو ایک رقعہ لکھا کہ آپ کے ریمارکس کی ٹون سے مجھے دلی صدمہ ہوا ہے، آپ نے اس سے پہلے مجھے کبھی اس تخاطب کا حقدار نہیں سمجھا تھا مگر ان ریمارکس نے میرا دل زخمی کردیا ہے۔ اور یہ خط انہیں پہنچا دیا۔ وہ مجھ سے جتنی محبت کرتے تھے کہ شاید ہی عملے کے کسی اور رکن کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہو، چنانچہ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے ایک پیار بھری کال کریں گے، فون پر میرے کان کھینچیں گے اور کہیں گے کہ بھول جائو، ابھی کوئی کالم لکھو اور مجھے بھجوائو۔ مگر نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ ان کا معتمد نائب قاصد منیر جو روزانہ مجھے کالم بھجوانے کی یاد دہانی کراتا تھا، اگلے دن اس کا فون نہیں آیا، اس سے اگلے دن بھی، اور میں نے پورے سات دن انتظار کرنے کے بعد نظامی صاحب کو ایک خط لکھا جس میں آئندہ کے لئے کالم لکھنے سے معذرت کردی۔

مجید صاحب نوائے وقت کی ملک گیر مقبولیت اور خود کو دینے والے عزت و احترام کے سبب ایک خاص رویے کے حامل بھی تھے، اس سارے معاملے کا پس منظر بھی تھا اور وہ یہ کہ ان دنوں میر شکیل الرحمان خود بھی اور میرے احباب اور قریبی رشتہ داروں سے بھی مجھے ’’جنگ‘‘ جوائن کرنے کی پیش کش کرچکے تھے بلکہ اس سے بھی بہت پہلے برلن میں ہم لوگ کہیں کھڑے تھے کہ نئی صحافت کے ’’کولمبس‘‘ میر خلیل الرحمان مرحوم و مغفور پروفیسر فتح محمد ملک کے ساتھ میرے پاس آئے اور پروفیسر صاحب کو مخاطب کرکے کہا ’’آپ قاسمی صاحب سے میری سفارش کر دیں کہ یہ میرے پاس آ جائیں‘‘ اس درجہ محبت بھرے الفاظ سن کر میں نے ان کا ہاتھ بہت محبت اور احترام سے تھاما اور کہا ’’کمال ہے میر صاحب آپ کو آج تک پتہ ہی نہیں چلا کہ میں آپ ہی کے پاس ہوں‘‘یہ میر شکیل الرحمان کی پیش کش سے بہت پہلےکی بات ہے۔ اس لمبی تمہید کے بعد میں آپ کو بتانا یہ چاہتا ہوں کہ مجید صاحب تک یہ ساری خبریں پہنچتی ہوں گی، بلکہ تمام صحافتی حلقوں میں یہ خبر پوری طرح سرگرم تھی۔ مجید صاحب نے سوچا ہوگا کہ ابھی اس لڑکے کو اس کی اوقات بتا دو۔ ان میں انا بہت تھی اور یہ رویہ اسی انا کے پس منظر میں اپنایا گیا۔ انا تو مجھ میں بھی تھی۔ چنانچہ میں نے میر صاحب کی پیش کش کو قبول کرلیا۔ انہوں نے اپنی اس خوشی کو یوں سیلبیریٹ کیا کہ جنگ کے سارے عملے کو اپنے آفس میں بلا کر انہیں یہ خبر سنائی کہ قاسمی صاحب نے ہمیں جوائن کرلیا ہے ، انہوں نے اپنی اماں مرحومہ کو بھی کال کی اور میری بات ان سے کرائی۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو مجید صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور دفتر کے ذمہ دار لوگوں سے فون پر بڑی بڑی پیشکش کی گئیں، اس میں میر ےمرحوم دوست عارف نظامی بھی سرگرم عمل ہوئے۔ ارشاد عارف جو اس وقت نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے اس سارے معاملے سے آگاہ ہیں، خود انہوں نے بھی دفتر کے بی ہاف پر ایک آفر کی۔ مجھے اپنے قارئین کے بھی فون آتے تھے ہر ایک گلہ کناں تھا کہ میں نے نوائے وقت کیوں چھوڑا، سچی بات ہے میں تنگ آگیا۔ ایک روز ایک اسی طرح کی کال آئی کہ واپس نوائے وقت میں آ جائیں، میں شوخی میں آگیا اور کہا میں تو مجید صاحب کو بھی جنگ میں لا رہا ہوں، اس پر وہ صاحب بہت سنجیدگی سے بولے ’’ جناب میں نوائے وقت کا ڈائریکٹر فنانس بول رہا ہوں اور آپ سے عرض کرنا تھی کہ جنگ نے آپ کو جو تنخواہ آفر کی ہے ہم اس سے دو گنا دینے پر تیار ہیں‘‘۔ ’’میں نے کہا برادر میں نے زیادہ پیسوں کی وجہ سے ’’جنگ‘‘ جوائن نہیں کیا اور زیادہ پیسوں کی خاطر ’’جنگ‘‘ بھی کبھی نہیں چھوڑوں گا‘‘۔اور پھر میں نے کئی مواقع پر اپنا یہ دعویٰ ثابت کردیا۔

نوٹ:طویل کالم کی اس صفحے پر گنجائش نہیں لہٰذا میر شکیل الرحمان اور ’’جنگ‘‘ کے بارے میں اپنے تاثرات اگلی قسط میں بیان کروں گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین