مسئلہ فلسطین نہ سیاسی جھگڑا ہے اور نہ ہی جغرافیائی تنازع۔ یہ ایک مذہبی، دینی،آسمانی اور نظریاتی مسئلہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ فلسطین روئے زمین کا وہ ٹکڑا ہے جو تاریخی، جغرافیائی اور مذہبی ہر اعتبار سے تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔ اسے اللّٰہ تعالیٰ نے مادی اور روحانی برکات سے مالا مال فرمایا ہے۔ کئی جلیل القدر انبیائے کرام علیہم السلام اس سرزمین پر مبعوث ہوئے۔ یہود و نصاریٰ نے جب مقدس عبادت گاہ کی حرمت کا تحفظ نہ کیا، اسکی پاکیزہ فضاؤں کو اپنے زہریلے گناہوں سے آلودہ کیا اور اللّٰہ اور انبیاء کی طرف سے کی گئی بار بار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں معزول کر کے امتِ محمدیہ کو یہ عظیم منصب سونپ دیا۔ اب فلسطین کے اصل حق دار مسلمان ہی ہیں۔القدس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔300قبل مسیح کنعانیوں نے اسکو بنایا۔ 1850قبل مسیح حضرت ابراہیم ؑ یہاں آئے اور یہاں کے بادشاہ سے ملے۔ 931قبل مسیح ’’القدس‘‘ پر حضرت سلیمان ؑ کی حکومت رہی۔ 587 قبل مسیح بخت نصر کے ہاتھوں یہ تباہ کر دیا گیا اور یہاں کے یہودی قیدی بنا لیے گئے۔ 135میں رومی بادشاہ ھد ریان نے یہاں سے یہود کو نکال باہر کیا۔400عیسوی میں القدس بازنطینی استعمار کے زیر نگیں رہا۔ 636عیسوی میں مسلمانوں نے معرکہ پر موک کے بعد ان علاقوں کو آزاد کرایا۔ 636ہجری میں 3000صحابہ نے اسے فتح کیا اور یہاں کے پادری صفر و نیوسی نے شہر کی چابیاں عمر بن خطاب ؓکے حوالے کیں اور معاہدہ کیا۔ 1099ء میں صلیبیوں نے یہاں پر قبضہ کیا۔ 187ء میں معرکہ حطین میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست فاش دی اور القدس کو آزاد کرایا۔ 1260ء میں معرکہ عین جالوت ہوا جس میں القدس کو تاتاریوں سے آزاد کرایا گیا۔ 1616ء میں عثمانی خلافت نے اسے اپنا حصہ بنالیا۔ 1917ء میں پہلی جنگ عظیم ہوئی ، خلافت عثمانیہ ختم کر دی گئی اور القدس انگریز کے قبضے میں چلا گیا۔ 1917ء میں ’’بالفور‘‘ معاہدہ ہوا اسکے تحت یہاں ’’ یہودی ریاست‘‘ قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ 1948ء میں فلسطین کے 78فیصد علاقے میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ 1967ء میں یہود نے فلسطین کے باقیماندہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ 1987ء میں یہودیوں کیخلاف جدو جہد کا اعلان کر دیا گیا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ارضِ مقدس فلسطین یہودیوں کے تسلط میں کس طرح چلی گئی؟ اس دردناک داستان کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مسلمانوں نے جب 636ء میں انجیل کی پیشگوئی کے مطابق فلسطین فتح کر لیا تو اسکے بعد یہ طویل عرصے تک مسلمانوں کے پاس رہا۔ بارہویں صدی عیسوی میں اہلِ یورپ نے اسے مسلمانوں سے چھیننے کیلئے مشہور صلیبی جنگیں لڑیں۔ ایک مرتبہ وہ کامیاب بھی ہو گئے، مگر فرزندِ اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں زبردست معرکہ آرائی کے بعد یہاں سے نکال باہر کیا ۔ 1516ء میں فلسطین ترکوں کی عملداری میں آ گیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ آخر عثمانی خلیفہ سلطان عبد المجید خان تھے۔ یہودیوں نے فلسطین پر ان کی کمزور پڑتی گرفت کے سبب طے کرلیا تھا کہ فلسطین میں صہیونی ریاست تشکیل دینی ہے، اسلئے انہوں نے پہلے مال و دولت کے ذریعے اپنا کام نکالنے کی کوشش کی۔ سلطنت عثمانیہ غیر ضروری اخراجات کے سبب مقروض ہو چکی تھی۔ یہودیوں نے سلطان کو پیشکش کی اگر وہ فلسطین کا علاقہ انکے حوالے کر دیں تو وہ نہ صرف یہ کہ سلطنت پر چڑھا ہوا سارا قرض چکا دینگے بلکہ اسکے علاوہ بھی کثیر مقدار میں سونا پیش کرینگے۔ عثمانی سلطان نے یہ تاریخی الفاظ کہے: ’’اگر تم اپنا سارا مال ودولت لا کر میرے قدموں میں ڈھیر کر دو تو پھر بھی میں فلسطین کی اتنی مٹی بھی نہ دونگا۔ ‘‘لارڈ رچرڈ ایک کٹر یہودی تھا ۔ اس نے اپنی ساری دولت صہیونیت کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اعلان بالفور کے ذریعے یہودی ریاست کا خاکہ تشکیل دیا گیا تو اس شخص نے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانے کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ اس وقت کے علما نے عوام کو سختی سے منع کیا کہ وہ یہودیوں کو زمین بیچ کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی نہ ماریں۔ لیکن وہ مہنگی قیمتوں کے لالچ میں اپنی زمین دھڑا دھڑ فروخت کرتے چلے جارہے تھے۔ رچرڈ جیسے سرمایہ دار یہودیوں کی وجہ سے فلسطینی زمینوں کی ملکیت اس وقت تک یہودیوں کے کھاتے میں منتقل ہوتی رہی جب تک یہودی اکثریت میں نہ ہو گئے۔ جیسے ہی ان کی آبادی کا تناسب مطلو بہ مقدار تک پہنچا تو انہوں نے مسلمانوں کو زبردستی انکے گھروں سے بے دخل کر کے ہجرت پر مجبور کرنا شروع کر دیا ۔ لارڈ رچرڈ جب مرا تو اسکی دستاویزات سے ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا نقشہ برآمد ہوا۔صہیونیت کے پانچ مشہور عزائم ہیں: 1- فلسطین کی سرزمین پر تمام دنیا کے یہودیوں کیلئے ایک قومی وطن بنانا۔2- یروشلم کو صہیونی سلطنت کا دار الخلافہ بنانا۔ 3- تمام مسلم ممالک کو نسلی، لسانی، گروہی تصادم کے نتیجے میں توڑ کر مسلم اور غیر مسلم باشندوں کو اکٹھا کر کے چھوٹی چھوٹی ریاست بنانا۔ 4- مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا۔ 5- گریٹر اسرائیل کا قیام، یعنی فلسطین کے بعد شام، لبنان، اردن، کویت، عراق، سعودیہ عرب، مصر اور ترکی کے کچھ حصوں پر مشتمل عظیم تر صہیونی ریاست کی تشکیل جو مسیح منتظر و موعود یعنی دجالِ اکبر کے شایانِ شان ہو۔آج بھی اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ جلی حروف میں کندہ ہے:’’اے اسرائیل! تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔‘‘ اس بات کا اعلان دو دن پہلے نیتن یاہو نے کیا ہے کہ گریٹر اسرائیل کا نقشہ کیا ہے؟ صہیونی کچھ بھی کر لیں، یہ اٹل حقیقت ہے کہ دجالِ اکبر اس کائنات کا آخری عظیم ترین فتنہ ہو گا، جس کی سرکوبی کیلئے بڑی جنگ سرزمینِ فلسطین پر لڑی جائیگی اور اس میں کامیابی مسلمانوں کو ہو گی۔