بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز)کی ناقص کارکردگی، بجلی چوری، واجبات کی عدم وصولی اور دیگر مختلف النوع بدعنوانیاں ملک کی معاشی مشکلات کا ایک بڑا سبب ہیں۔ ان میں اصلاحات کی کوششیں اب تک بیورو کریسی اور سیاسی عناصر کی مزاحمت کی وجہ سے ناکام ہوتی رہی ہیں۔تاہم وفاقی کابینہ نے چھ ماہ پہلے اس مقصد کیلئے ڈسکوز میں انٹیلی جنس، انویسٹی گیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کے تعین کی شکل میںایک مؤثر حکمت عملی طے کی تھی جس کا آغاز ملتان اور سکھر سے کیا گیا اور پھر لاہور اور کوئٹہ میں بھی اس پر عمل درآمد ہوا لیکن سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) میں اس فیصلے کے نفاذ میں اب تک بڑی رکاوٹیں حائل رہیں جبکہ دیگر جگہوں پراس حکمت عملی کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔تاہم ایک رپورٹ کے مطابق طویل سیاسی اور غیر سیاسی مزاحمت کے بعد وفاقی حکومت نے بالآخر سندھ میں بھی سکھر الیکٹرک پاور کمپنی سے اس فیصلے کے نفاذ کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔اس حوالے سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سیپکو کے سی ای او اور سول آرمڈ فورسز کے سیکٹر کمانڈر بالترتیب ڈی ایس یو کے ڈائریکٹر اور شریک ڈائریکٹر ہوں گے، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے گریڈ 18 اور 19 کے افسران اور کمشنر کے نامزد کردہ گریڈ 18 کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل افسران ڈی ایس یو کے ممبر ہونگے۔اسکے علاوہ، ڈی ایس یوز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سکھر سروس کے دائرہ اختیار میں ہر ڈویژن یا رینج سے گریڈ 18کے انتظامی اور پولیس افسران کو متعلقہ کمشنرز یا ڈی آئی جیز کی کلیئرنس کے ساتھ شریک کریں۔ بلاشبہ بجلی کے نظام کی درستگی معیشت کی بہتری کیلئے ناگزیر ہے، اس ضمن میں وفاقی حکومت کی کاوشیں خوش آئند ہیں جبکہ سندھ کی تمام ڈسکوز سے ہر قسم کی بدعنوانی ختم کرنے میں صوبائی حکومت کو بھی بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔