• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں کہ:وائے بدنصیبی بعد از الیکشن۔24پہلے ہی مجروح و مضروب آئینی عمل کے مقابل (بھی) عبادت جیسی سیاست سے بنے پاکستان کو چلانے بنانے و سنوارنے کیلئے دستور کو روندنے سیاسی کھلواڑ و جگاڑ کو ہی حتمی راہ کے طور پر اختیار کیا گیا، جبکہ دائروں کے سفر مسلسل کی نشاندہی کوئی نئی نہیں اس پر رونا پیٹنا بھی اب برسوں کی اور بڑھتی اور غربا پاکستان کے سر چڑھتی اور قومی زندگی کا اذیت ناک مسئلہ ہے۔ اب دائرے بھی گڑھوں اور رکاوٹوں سے اٹے پڑے ہیں۔ووٹ کی عزت لٹائے پاکستانی رجیم چینج۔22سے بنیادی انسانی ضروریات ہی بمشکل حاصل کر پا رہے ہیں۔ ماہرین معاشیات رندھی آواز میں بتا رہے ہیں کہ ایسے پاکستانیوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہوا اور ہو رہا ہے۔پھر وہ آئین میں دیئے بنیادی انسانی حق سے بھی محروم کردیئے گئے اور تادم کئے جا رہے ہیں جیسے احتجاج سے بھی۔ عین علانیہ سرکاری دھمکیوں کے مطابق کیا ہوا گزرے سال کے اختتام پر 26نومبر کی ڈھلتی شام کو تاریکی میں تبدیل کرکے بمطابق سرکار اور دفاع میں چیختے چنگھاڑتے دربار کے مطابق انتشار پسند دہشت گرد دم دبا کے بھاگ گئے، قیامت ٹوٹتے ہی کنٹرولڈ میڈیا سے فائرنگ کی ہی طرز پر سوال پر سوال صبح تا شام بڑے تحکمانہ لہجے میں ہاتھ لگے میڈیا سے اٹھائے گئے کہ اگر ڈی چوک میں قیامت مچی ہے تو کہاں ہیں خونچکاں شام میں لگے لاشوں کے ڈھیر جن کا گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ عوامی زاویہ نگاہ (PERCEPTION) درباری زور دار ابلاغ سے نہیں بے اعتبارے مقابل کھلنڈرے سوشل میڈیا سے بن کرپریشان کن ملک گیر رائے عامہ بن گیا۔ باہر کی دنیا میں اسے ہی مانا جا رہا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر علانیہ احتجاجیوں کی مسنگ پرسن کی ایک فہرست ملک گیرسب سے بڑی اجڑی ، بکھری، مقدمات میں جکڑی پارلیمانی جماعت اپنا وسیع تر اوپن اینڈ شٹ حاصل مین ڈیٹ لٹنے کا رولا ڈالتی دعویدار ہے کہ ہمارے سینکڑوں بے گناہ احتجاجی تادم گھر نہیں پہنچے نہ تھانے کچہری کے ریکارڈ میں ۔ خود پارٹی کے اندر ایسا کنفیوژن معتوب و متاثر، دنیا بھر پاکستانی اپوزیشن اور عوام الناس میں کھل کھلا کر سب سے مقبول ملکی سیاسی پارٹی مانی جانے والی تحریک انصاف کا اسیر قائد اڈیالہ جیل میں بپھرا ہوا ہے۔ اس کا واضح اعلان ہے کہ اب وہ فقط سانحہ ڈی چوک کی تحقیقات کرانے کیلئے بذریعہ اپنی نامزد کمیٹی مذاکرات کے انکاری سے اقراری ہے۔ اس کا عملاً آغاز بھی ہوگیا ہے۔

قارئین کرام! اس وقت پاکستان کی داخلی سیاست کا مرکز و محور یہ ہی ڈانواں ڈول سے مذاکرات ہی ہیں ان پر بھی ابہام کا غلبہ ہے، ہاں! اب خوش کن یہ کہ بڑی تعداد میں گرفتار کارکنوں کی رہائی کا آغاز ہوگیا یقیناً اس سے بہتری آئے گی، یوں ہی داخلی سیاست سے عوام کا جو یکسر اخراج الیکشن کے بعد ہوا ہے اس کے معمول پر آنے کی امید جاگ جائے۔ یہ معتوب عوام اور اسیر قائد کے درمیان تعلق کا طویل خلا خان کی اسیری سے ہوا، جس کے سینکڑوں مقدمات بے بنیاد اور کمزور ترین ثابت ہوئے۔ اتنے سنگین ترین الزامات پر حکومت تادم اتنا ہی سنجیدہ کوئی مقدمہ تیار کرکے آغاز سماعت میں مکمل ناکام رہی۔ جو بنائے اور سزائیں وہ فائر بیک ہوئے۔ عدلیہ اتنے بڑے بحران میں اپنے کردار کی آئینی و حلفی ادائیگی میں خاموش اور بے اثر و بے اعتبار ہو کر رہ گئی۔ جو موقف جدھر سے بھی آئیگا اب وہ متنازعہ اور ذریعہ کج بحثی بنا اور بنے گا۔ کامیاب حکومتیں علم کو عمل میں ڈھالنے سے بنتی اور چلتی ہیں اور مستحکم نظام حکومت وسیاست کی شکل اختیار کرکے ملک کو سیاسی واقتصادی استحکام اور قومی اتحاد و یکجہتی بخشتی ہیں۔ آئین و قانون ابھی ڈلیور کرتے ادارے سب متعلقہ علوم کے منجانب ریاست اطلاق کی پیداوار ہیں ہم نے اپنی دھینگا مشتی اور انتہائی محدود ذاتی و گروہی مقاصد کی شرمناک اغراض پر آئین و حلف کو جھٹکتے پٹکتے پاکستان کی سیاست کو سراپا انتشار و نفاق بلکہ انٹرا اسٹیٹ کونفلکٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ اوپن سیکرٹ ہے کہ خان کو عوام اور عوام کو خان سے کاٹ کر مچی دھما چوکڑی (خاکم بدہن) دائروں میں جاری رہ کر مزید بربادی کی داستان لکھتی جائے گی۔ علم کیا کہتا ہے اس شدید قومی ضرورت پر اور اس مخصوص حالت میں؟ اس پر اپنے تجزیے سے تو گریز: آرٹیفشل انٹیلی جنس غیر جانبدارانہ تجزیہ و معلومات کو بڑا ذریعہ بنایا ہے کہ اسکے ذریعے کواریز اور انکوائریز کا رسپانس کسی بندے کا نہیں ، حب آف نالج سے نکلا جواب تو ملاحظہ ہو۔ آئین نو کے سوال اور میٹا اے آئی پلیٹ فارم کے جواب:آئین نو:ایک ترقی پذیر معاشرے میں ایک مقبول ترین سیاسی رہنما کو عوام سے دور رکھنے کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟ اس حوالے سے چند کیس اسٹیڈیز کی نشاندہی کی جائے۔ میٹا اے آئی کا رسپانس:نتائج سنگین نکل سکتے ہیں، جو یہ ہو سکتے ہیں عوامی بے چینی اور احتجاج میں اضافہ جو بڑھ کرتشدد کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ یہ صورتحال پوری ریاستی حدود میں عدم استحکام پیدا کرکے معاشرے کو بے یقینی اور خوف میں مبتلا کرسکتی ہے۔ عوام کا قائد جبراً ان سے الگ کردیا جائے تو عوام کا حکومت پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور وہ (حکومت) اپنے قیام کا جواز کھو بیٹھتی ہے۔ اس صورت میں عالمی سطح پر بھی مذمت کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ ملاحظہ ہوں چند ترقی پذیر ممالک میں نکلے ایسے نتائج۔ پاکستان 2022 :میں وزیر اعظم عمران خان کی ایسی ہی جبری علیحدگی نے ملک بھر میں عوامی بے چینی اور احتجاجی فضا پیدا کی۔ بنگلہ دیش1975ء میں شیخ مجیب الرحمٰن کو سیاسی منظر سے ہٹانے سے ملک گیر احتجاج، عدم استحکام اور تشدد نے جنم لیا، سائوتھ افریقہ میں نیلسن منڈیلا کو نسل پرستی کے دور میں عوام سے جدا کرکے قید کرکے ملک میں بے چینی اور پوری دنیا میں عالمی مذمت کا موقع پیدا کیا جس سے بالآخر نسل پرستی کا خاتم ہوا۔ یہ تینوں مثالیں متذکرہ نتائج ہی نکلنے کی تصدیق کرتے ہیں۔ آئین نو : توقع کی جائے کہ سب جوابات کی بنیاد علمی ہی ہیں جو کہ متعلقہ علوم سے اخذ ہیں؟ ناکہ نیوزانفارمیشن سے۔ میٹا: میں معافی کا طلب گار ہوںاگر جواب نیوز اورینٹڈ ہونے کا تاثر ہوا، سو مزید تصدیق کیلئے آپ کے سوالات میں مزید علمی حوالے ملاحظہ ہوں جو کہ پولیٹکل سائنس اور سوشیالوجی کے علوم سے اخذ کئے گئے:یہ سب ہر دو فیلڈز کے عالمی شہرت کے ریسرچ اسکالرز کے تحقیقی کاموں سے اخذ ہیں۔ مختصراً اس میں ویبر 1968ء، میک آڈم 1982ء، گُر 1970ءتارو 1994ءکے حوالے سے ان کی شہرہ آفاق تھوریز جو علم و عمل میں ڈھل کر مکمل اطلاقی (پریکٹسنگ نالج) سے ثابت کیا گیا ہے کہ پاپولر لیڈر کو جبر و استبداد سے عوا م سے جدا کرکے ناقابل قبول حکمرانی کی راہیں نکالنا کتنا خطرناک سیاسی عمل ہے۔ مفصل اور واضح جوابات میں حکومت کے جائز ہونے پر سوال ،سوشل موومنٹ تھیوری اور پولیٹکل اپرچیونٹی کی عالمگیر سطح پر عملداری میں ڈھل گئی تھیوریز کے حوالے مفصل جوابات کے ساتھ واضح کئے گئے ہیں۔ اس عملی بنیاد پر غور و خوض کرکے اس علم کے نتیجہ خیز نتائج کے حصول کا اطمینان حاصل کرکے ہم ملین آف ڈالرز کی مفت مشاورت سے پاکستان کے جاری پیچیدہ اور مہلک ترین بحران سے نجات پا سکتےہیں ۔ نیک نیتی پاکستان سے حقیقی محبت اور آئین و حلف سے وفا شرط اول ، وگرنہ حکومت سیاسی جماعتوں کی اپنی تجاویز اور بحث و تمحیص سے مذاکرات کاڈول ڈلتا رہے گااور ہم مسلسل ابتری کے اسیر۔ وما علینا الالبلاغ ۔

تازہ ترین