تحریک انصاف کے بانی جناب عمران خان پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جو سیاست میں آنے سے پہلے بھی فرنٹ پیج کی اسٹوری تھے اور جیل میں جانے کے بعد بھی ہیڈ لائنز کی زینت ہیں۔ وہ پہلے بھی عالمی جریدوں کیلئے ایک اہم شخصیت تھے اور آج بھی بین الاقوامی میڈیا کیلئے ایک اہم خبر ہیں۔اپنے مضبوط اعصاب اور غیر متزلزل قوت ارادی کی بدولت تا حال وہ ایسے سیاست دان ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے نہ تو اپنی قید کے دوران ہسپتال کا رخ کیا ہے اور نہ ہی کوئی رعایت لینے کیلئے درخواست پیش کی ہے۔ لیکن کیا کریں پاکستانی سیاست کے احوال کچھ ایسے ہیں کہ کوئی بھی افواہ سچ ثابت ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔پاکستان کی سیاسی تاریخ ڈیلوں، این ار اوز، جلاوطنیوں سے بھری پڑی ہے۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے اسلام آباد کے ایوانوں اور بعض بڑوں کی بیٹھکوں میں سرگوشیوں اور کہیں اونچی آوازوں میں ایک مرتبہ پھر عمران خان کی جلاوطنی کی باتیں بحث زیر بحث ہیں۔ 2023ءکے آخر میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کی اہلیہ مشرق وسطی کے ایک ملک کے سفارت کار سے ملی ہیں لیکن وہ خبر یا تو درست ثابت نہیں ہوئی یا پھر وہ معاملہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ پاکستانی عوام اور تجزیہ نگاروں کیلئے جلاوطنی اور ڈیل کی خبروں پر یقین کرنا اس وجہ سے بھی ضروری ہو جاتا ہے ملک میں سیاسی اور معتوب رہنماؤں کی جلاوطنی،یا بیماری میں مبتلا ہو کر بیرون ملک جانا کوئی نئی بات نہیں رہی۔ پاکستانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کئی رہنما تو واقعتا بیمار ہوئے اور علاج کیلئے کسی ترقی یافتہ ملک کے ہسپتال کا رخ کیا اور کچھ راہنما ’ان دیکھی بیماریوں‘کی وجہ صحت افزا ملک میں پناہ گزین ہوئے۔پاکستان میں جبری جلاوطنی کا پہلا واقعہ 1958ءمیں پیش آیا جب ملک کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدرا سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لالگایا اور اپنے اختیارات ایوب خان کے سپرد کر دیے۔ ایوب خان نے بزور طاقت اسکندر مرزا سے استعفیٰ لیا پھر انہیں کوئٹہ منتقل کیا اور محض پانچ دن کے بعد انہیں لندن بھیج دیا گیا۔ جہاں وہ اپنی وفات تک گمنامی کی زندگی گزارتے رہے۔ان کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ، میت پاکستان لانا چاہتے تھے لیکن یحییٰ خان نے انہیں پاکستان میں تدفین کی بھی اجازت نہ دی یوں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل ایران میں دفن ہوئے۔ ایوب خان کے دورحکومت میں ایبڈو کے تحت کئی سیاستدان نا اہل ہوئے ان میں ایک سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی بھی تھے۔ لیکن وہ گھر بیٹھنے کے بجائے حکومت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران دل کی تکلیف کے باعث انہیں بیرون ملک بھیج دیا گیا لیکن وہ پاکستان زندہ واپس نہ آسکے۔کہاں جاتا ہے کہ 1977ءمیں مارشل لا لگانے سے قبل جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنی اہلیہ اور صاحبزادی کو بھی لندن روانہ کر دیا تھا۔ 1977ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے جلاوطنی اور سیاست سے کنارہ کشی کی پیشکش مسترد کر دی یہاں تک کہ ترکی نے بھٹو کو شہریت تک دینے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے معاملات طے کرنے کے بجائے پھانسی قبول کی البتہ ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے والا مسعود محمود از خود جلا وطن ہو گیا اور بیرون ملک ہی اس کا انتقال ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جسٹس غلام صفدر شاہ بھی انتقامی کارروائیوں کے باعث جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں صاحبزادے شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو جلاوطن ہو گئے۔اول الذکر تو بیرون ملک ہی فوت ہوئے جبکہ مرتضی بھٹو محترمہ بے نظیر کےدور حکومت میں کراچی کی سڑک پر قتل دیے گئے۔محترمہ بے نظیر بھٹو، بھٹو کی پھانسی کے بعد متحرک ہوئیں،جس کے بعد انہیں نظربند کیا گیا مختصر وقفوں کیلئے رہا کیا جاتا پھر نظر بند کر دیا جاتا۔ 1984ءمیں وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک جلاوطن کی گئیں اور پھر 1986ءمیں ان کا تاریخی استقبال ہوا 1999ء میں وہ ایک مرتبہ پھر سیاسی انتقامی کارروائیوں سے بچنے کیلئے بیرون ملک جلاوطن ہوئیں اور پھر پاکستان میں آئیں تو شہید کردی گئیں۔میاں نواز شریف کی جلاوطنی کی تاریخ سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ محترمہ کلثوم نواز نے بڑی دلیری سے احتجاج اور مذاکرات ایک ہی وقت میں جاری رکھے۔
دسمبر2000ءمیںایک معاہدے کے ذریعے شریف خاندان نے سزاؤں سے معافی کیلئے نقد جرمانہ ادا کیا۔رہائشگاہ اور کاروباری اثاثے حکومت کے حوالے کئے اور 10دسمبر 2000ءکو پورا خاندان تحریری ڈیل کے ذریعے سعودی عرب جلاوطن ہوگیا۔2006ءمیں لندن گئے اور 2007ءمیں دوست ممالک کی ''یقین دہانیوں''کے بعد وطن واپس آئے۔انکی دوسری جلاوطنی بغرض علاج تھی۔لندن میں ’’کامیاب علاج‘‘ کے بعد 2024ءکے الیکشن سے قبل پاکستان تشریف لائے۔کہا جاتا ہے کہ دونوں جلا وطنیاں انکی اپنی درخواست پر کی گئیں۔ اسلام آباد کے باخبر حلقے ان ساری تفصیلات سے آگاہ ہیں۔جناب آصف علی زرداری، جام صادق علی، ممتاز بھٹو،غلام مصطفی کھر سمیت کئی بڑے نام جلا وطنی کا شکار رہے۔خو ساختہ یا جبری جلاوطنی کے اس تاریخی پس منظر میں راقم کی رائے میں عمران خان اس وقت ایک تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔تمام حربوں کے باوجود انکی عوامی مقبولیت قائم ہے۔ اگر عمران خان اسی مضبوطی سے اپنے موقف پر قائم رہے، جیل کی سختیاں برداشت کرتے رہے،ڈیل اور ڈھیل کا شکار نہ ہوئے تو تاریخ میں انکا نام امر ہو جائیگا اور ریاست کیلئے انکا سیاسی وزن برداشت کرنا ممکن نہیں رہے گا۔