وطن عزیز میں سونے کے نئے ذخائر کی دریافت نیک فال ہے۔ ان ذخائر کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ قدرت نے معاشی مسائل کے حل اور ترقی و خوشحالی کے جو اسباب پیدا کئے ہیں انہیں احتیاط و درستی کے ساتھ بروئے کار لایا جانا چاہئے۔ پنجاب کے صوبائی وزیر برائے معدنیات سردار شیر علی گورچانی کی ’’جنگ ‘‘سے خصوصی گفتگو میں سامنے آنے والی یہ بات بلاشبہ ملکی مستقل کے حوالے سے خوش آئند ہے کہ اٹک کے 32کلومیٹر کے پھیلے ہوئے علاقے میں سے دریافت 28لاکھ تولے سونے کی عالمی منڈی میں مالیت 600سے 700ارب روپے ہے۔ بتایا گیا کہ سونے کے ان ذخائر کے حوالے سے جیولاجیکل سروے آف پاکستان کی اسٹڈی کے ساتھ پیش رفت جاری ہے اور گزشتہ ایک سا ل سے اس پر کام ہورہا تھا، مالیت کو مزید کنفرم کرنے کے لئے نیسپاک اور دیگر فرموں کی معاونت حاصل کی جائے گی اور ایک ماہ تک آکشن کر دیا جائے گا، اس کے لئے بین الاقوامی سطح پر اشتہار دیئےجائیں گے۔ اس باب میں ابتدائی کام خاصا آگے بڑھ چکا ہے۔ سونے کی آکشن کے حوالے سےفریم کئے گئے قواعدکی اگلے منگل کو ہونیوالے پنجاب کابینہ کے اجلاس سے منظوری حاصل کی جائیگی۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ اٹک کیساتھ ملحقہ دوسرے صوبے کے علاقے میں بھی 50سے 60کلومیٹر تک سونے کے ذخائر ہیں مگر وہاں کے فیصلہ سازوں نے کسی اسٹڈی کے بغیر اس علاقے کو 2سے 3ارب روپے میں آکشن کر دیا ۔ وطن عزیز میں دریافت ہونے والے سونے کے ذخائر بلاشبہ بڑا اثاثہ ہیں۔ پاکستان جیسے ملک کو ان کی ضرورت بھی ہے ۔اس باب میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کا مداوا کیا جانا چاہئے ۔ سونے کے جو اثاثے رہ گئے ہیں ان کی حفاظت کی جانی چاہئے اور معدنی وسائل کی دریافت کی طرف پیش قدمی کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے کیونکہ ملکی معاشی بحالی اور آئندہ نسلوں کیلئے نئے مواقع پیدا کرنے کی ہمہ جہت کاوشوں کو اس سے غیر معمولی تقویت ملے گی۔