• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاست دانوں کے درمیان مذاکرات کے نام پر اکثر اوقات دھوکہ ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مذاکرات کرنے والے سیاست دان اکثر اوقات بے اختیار ہوتے ہیں۔ آج کل شہباز شریف کی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا تماشہ چل رہا ہے ۔اس تماشے میں مزید تماشے شامل ہو رہے ہیں۔ القادر ٹرسٹ کیس میں ایک جج صاحب عمران خان کے خلاف 190 ملین پائونڈز کے مبینہ غبن کے مقدمے میں فیصلہ سنانے کیلئے تین مرتبہ تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ اگلی تاریخ ڈال دیتے ہیں۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ عمران خان کی بہن علیمہ خان للکارے مار رہی ہیں کہ ہمت ہے تو فیصلہ سنائو۔ عمران خان بھی اس مقدمے میں دس سے چودہ سال قید کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ اس مقدمے میں سنائی جانے والی سزا سے انہیں انواع واقسام کے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ جس ملزم پر انہیں 190 ملین پائونڈ دینے کا الزام ہے وہ دبئی میں نئے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کررہا ہے۔ افتتاحی تقریبات کی خبریں اور تصویریں پاکستانی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کے بعض دبنگ وزراء اس ملزم کے دبئی دربار میں حاضری دیکر عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی منت کرچکے ہیں لیکن ملزم ان فریادی وزراء کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیتا ہے۔ یہ ملزم پاکستان کے اصل فیصلہ سازوں کے گھر کا بھیدی ہے وہ جانتا ہے کہ اصل کھیل احتساب عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد شروع ہو گا جب یہ فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا ہائیکورٹ میں سماعت شروع ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے کردار پر بحث شروع ہو گی جس نے 190 ملین پائونڈز کو برطانیہ سے پاکستان لانے میں سہولت کاری کی۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ ایک طرف موجودہ حکومت کی کچھ شخصیات عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے درپے ہیں دوسری طرف یہ شخصیات القادر ٹرسٹ کیس کے دبئی بیٹھے ملزم کو کسی نہ کسی طریقے سے بچانا چاہتی ہیں اور یہی وہ تضاد ہے جس کا عمران خان فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی مقبولیت کو ختم کرنے کیلئے ایک سے زائد بار ان کے ساتھ ڈیل کی کوشش کی جا چکی ہے، خان صاحب ہر بار ڈیل پر بات آگے چلاتے ہیں، تمام اسرار ورموز سے آگاہی حاصل کرتے ہیں اور آخر میں انکار کرکے اپنے ہی ساتھیوں کو ناراض کردیتے ہیں کیونکہ ہر مرتبہ ڈیل پیکیج لانے والا ان کی اپنی ہی جماعت کا کوئی پرانا یا نیا بندہ ہوتا ہے۔ بار بار ڈیل کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف کے پرانے اور نئے بازی گروں نے عمران خان کے ساتھ جیل میں ڈیل کی کوشش چھوڑ دی ہے۔ ان بیچاروں کو شک پڑگیا ہے کہ خان صاحب رہائی میں سنجیدہ نہیں بلکہ ڈیل کی بات چیت کرنے کیلئے پیغام رسانی کرنے والوں کی پہنچ کا اندازہ لگانے کیلئے معاملات آگے بڑھاتے ہیں اور پھر یوٹرن مار دیتے ہیں۔ عمران خان ہر بار ڈیل سے انکار کر کے عوام الناس کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان میں اور نواز شریف میں یہی فرق ہے۔ نواز شریف جب بھی جیل جاتے ہیں ڈیل کر کے بیرون ملک چلے جاتے ہیں عمران خان ڈیل کرکے نہ تو پاکستان سے باہر جانا چاہتے ہیں نہ ہی دوبارہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ ان کے ایک وکیل نے پوچھا کہ لگتا ہے آپ دوبارہ وزیراعظم نہیں بننا چاہتے، خان صاحب نے کہا کہ ایک دفعہ وزیراعظم بن کر دیکھ لیا میں دوبارہ شہباز شریف جیسا وزیراعظم نہیں بننا چاہتا۔ انکے دل میں عجیب وغریب خواہشات مچل رہی ہیں انکی خواہش ہے کہ ان پر فوجی عدالت میں بھی مقدمہ چلایا جائے تاکہ انہیں اپنے تمام سیاسی حریفوں پر برتری حاصل ہوجائے۔ 1999ء میں نواز شریف پر آرمی چیف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا گیا تھا لیکن ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا پھر مقدمے کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی نواز شریف نے کچھ غیر ملکی دوستوں کی مدد سے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک ڈیل کی اور بیرون ملک چلے گئے۔ عمران خان چاہتے ہیں ان پر فوجی عدالت میں کوئی نہ کوئی مقدمہ چلایا جائے کیونکہ اس فوجی عدالت سے جو سزا سنائی جائے گی اس کا خمیازہ پاکستان کی پوری حکمران اشرافیہ بھگتے گی۔ عمران خان اتنے خطرناک ہو چکے ہیں کہ اپنی قید اور اپنی سزائوں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں صاحبان اختیار اس ہتھیار کو توڑنے کیلئے مذاکرات کی کلہاڑی استعمال کر رہے ہیں۔ مذاکرات کیلئے جو میز سجائی گئی ہے اس پر بیٹھے دونوں فریقین بے اختیار ہیں۔ حکومتی ٹیم کی بے اختیاری تو کوئی راز نہیں تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم بھی بے اختیار ہے کیونکہ اصل فیصلہ تو قید اور سزائوں کے شوقین عمران خان نے کرنا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں مذاکرات کے ساتھ ساتھ پاکستان کا پورا نظام انصاف ایک تماشہ بن جائے گا۔ شہباز شریف کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستانی معیشت کو بحران سے نکال لیا ہے لیکن دوسری طرف وفاقی وزرات خزانہ کی طرف سے قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں قرضوں کا بوجھ اور مالیاتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔ 2023ء میں ہر پاکستانی پر دو لاکھ 71 ہزار روپے کا قرضہ تھا جو 2024ء میں تین لاکھ دو ہزار روپے ہو گیا۔ 2025ء میں قومی اسمبلی سے منظور کردہ ایک قانون کے تحت حکومت بجٹ خسارے کو مجموعی قومی پیداوار کے 3.5فیصد تک رکھنے کی پابند ہے لیکن 2024ء میں یہ خسارہ 7.3فیصد تک پہنچ گیا جو ساڑھے سات کھرب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ حکومت نے سرکاری خرچے کم کرنے کی بجائے بڑھا دیئے ایک طرف خرچے کم کرنے کیلئے ہزاروں سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے دوسری طرف اربوں روپے کے غیر ضروری منصوبے شروع کردیئے جاتے ہیں تاکہ تعمیراتی کاموں میں کرپشن کی جائے۔ اسلام آباد اس کرپشن کا گڑھ ہے جہاں پہلے ایک سڑک بنائی جاتی ہے پھر اکھاڑ کر دوبارہ بنائی جاتی ہے اور اربوں روپے ضائع کر دیئے جاتے ہیں۔ احتساب بیورو کا کام اس کرپشن کو روکنا تھا لیکن سال ہا سال سے احتساب کے نام پر کبھی نواز شریف اور کبھی عمران خان اپنے مخالفین کو سزائیں دلاتے ہیں اور بعد میں خود بھی سزائوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ عمران خان فی الحال ان سزائوں کو اپنی طاقت بنا کر پورے سسٹم کو تماشہ بنانے پر تلے بیٹھے ہیں انہیں پتہ ہے کہ قرضے لیکر حکومت چلانے والے بہت جلد بے نقاب ہو جائیں گے نہ تو انہیں حکومت پر اعتماد ہے نہ ہی اپنے ان ساتھیوں پر جو جیل میں ڈیل کا پیکیج لیکر آتے جاتے رہتے ہیں۔ معاملات سنبھالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف مل کر پارلیمینٹ کو بااختیار بنائیں جو آج کل ایک تماشہ گاہ بنی ہوئی ہے۔

تازہ ترین