• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطینیوں کی تنظیم حماس اور صہیونی ریاست اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پانے کی خبر ایک مثبت پیش رفت ہونے کے باوجودکئی حوالوں سے امن پسند حلقوں کی فکرمندی میں قابل لحاظ کمی کا سبب نہیں بن سکی۔ اس باب میں عالمی سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جہاں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ تقریباً آچکا ہے اور پانچ سالہ میعاد پوری کرکے رخصتی کی تیاری کرنیوالے صدر جوبائیڈن اور انتخابات میں کامیابی کی صورت میں دوبارہ وائٹ ہائوس جانے کیلئے تیار ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی تشویش کا باعث بننے والی صورتحال کے خاتمے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری کے وعدے پر کس حد تک اور کتنی مدت تک قائم رہے گا؟اس کے ماضی کے کردار کی روشنی میں حتمی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں۔ تاہم واشنگٹن اس باب میں عالمی امن کے مفاد میں کردار کرنا چاہے گا تو وہ موثر ہوسکتا ہے جبکہ متعدد حلقے یہ رائے رکھتے ہیں کہ حالیہ جنگ بھی واشنگٹن کی عملی، اسلحی، مالی حمایت کے بغیر لڑی نہیں جاسکتی تھی۔ بدھ کے روز سامنے آنے والی پیش رفت یہ ہے کہ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے دوحہ میں پریس کانفرنس کے ذریعے عالمی برادری کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پانے کی خبر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کا آغاز اتوار 19جنوری سے ہوگا۔ یہ وضاحت حوصلہ افزا ہے کہ امریکہ، مصر اور قطر مذکورہ معاہدے کی نگرانی کریں گے، قطر فلسطینیوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے معاہدے میں کردار ادا کرنے پر نومنتخب صدر ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ کا شکریہ بھی ادا کیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں6ہفتوں کی فائر بندی ہوگی جبکہ 33اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں 250وہ فلسطینی بھی شامل ہیں جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے اسرائیلی فوجیوں کا غزہ سے انخلا طے شدہ شیڈول کے مطابق مرحلہ وار ہوگا۔ صہیونی افواج مصر اور غزہ کی سرحد فلاڈیلفی کوریڈور (صلاح الدین محور) سے بھی نکل جائیں گی۔ امریکہ کے دوسری بار منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کے اعلان میں سبقت لی جبکہ ایوان صدر میں موجود جوبائیڈن کا اعلان بعد میں آیاجس میں مذکورہ معاہدہ امریکہ کی بہترین سفارت کاری کا نتیجہ قرار دیاگیا۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرس، یورپی یونین اور عالمی برادری کی طرف سے بھی جنگ بندی فیصلے کا خیرمقدم سامنے آیا ہے۔ اس پیش رفت پر اسرائیل اور غزہ کے علاقوں میں عوامی سطح پر خوشی کا اظہار فطری بات ہے مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ جنگ بندی کے اعلان سے قبل بدھ کو غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی طیاروں نےحملوں میں اضافہ کرتے ہوئے 67فلسطینیوں کو شہید کر دیا جبکہ 7اکتوبر 2023ء کے بعد 15ماہ سے زائد عرصے میں 46ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ کو زخمی کیا جاچکا ہے۔ دوسری جانب مزاحمتی گروپوں کی کارروائیوں میں 405صہیونی فوجی مارے گئے اور اسرائیل کے اندر 1200سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ حماس کے مرکزی رہنما خلیل الحیا کے یہ الفاظ وزن رکھتے ہیں کہ جنگ بندی فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مزاحمت کا نتیجہ ہے جبکہ یمن کے حوثیوں نے جنگ بندی پر مزاحمتی گروپوں کو سلیوٹ پیش کیا ہے۔ اس وقت فلسطینیوں سمیت عالم اسلام کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے، ان کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک اپنی تنظیم او آئی سی کی آواز زیادہ موثر بنائیں اور بین الاقوامی سفارت کاری کے ذریعے اسرائیلی سفاکیوں کا اعادہ روکنے کی تدابیر کریں۔

تازہ ترین