• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جب میں سرشام تمہارے سامنے کھڑا ہوتا ہوں، تم میرے زخم دیکھتے اور یہ جان لیتے ہو کہ میرے پاس اپنے زخم بھی ہیں اور ان کا مرہم بھی ۔‘‘ رابندر ناتھ ٹیگور۔ کہا جاتا ہے کہ جنھیں خدا تباہ کرنا چاہتا ہے، انھیں عقل سے محروم کردیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں کھیلا جانے والا کھیل اس پرانے غیر مذہبی محاورے کے پیرائے میں بے حد نمایاں دکھائی دیتاہے ۔

عمران خان حکومت کے خاتمے کے دو سال بعد، اور جبر کی کتاب میں لکھا ہر حربہ آزمانے کے باوجود ان کا نام سیاسی منظر نامے سے مٹانے کی ہر ممکن جنونی کوشش ناکام رہی۔ لیکن اس نے قوم کی ذہنی صحت پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ درحقیقت جنونیت کی ایسی لہر کی وجوہات کا کھوج لگانے والے موجودہ صورت حال کو ایک منفرد اسٹڈی کیس کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہو، وہ اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن جو کچھ اُس کے پاس نہ ہو، وہ اس کیلئے بے قرار رہتا ہے۔ آزادی کے خزانے کی عملی صورت سے زیادہ کوئی چیز بھی اس عجیب رجحان کو بیان نہیں کرتی، اور موجودہ پاکستان میں اس کا فقدان ہے، بلکہ یہ گراوٹ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ کیا ایسا ہے، کہ عمران خان کو سیاسی موقع، جو ہر شہری کا طے شدہ حقوق ہے، سے محروم کرنے کیلئےیہ سہولت ہر اس شخص سے چھینی جا رہی ہے جو ان سے یا ان کے تصورات سے کسی طور وابستہ ہے۔ کیا کسی نے یہ جائزہ لینے کی زحمت کی ہے کہ اس کے تمام معاشرے کیلئے کتنے تشویش ناک نتائج نکلے ہیں؟

لیکن اختلاف رائے کو روکنے کیلئے سخت گیر طریقوں کے بڑھتے ہوئے استعمال نے حوصلے، عزم اور بے خوفی کو مہمیز دی ہے۔ آزادی کے روشن تصورات سے وابستہ خواب نے مایوسی کے اندھیروں میں گم ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ درحقیقت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے بے مثال اہمیت اختیار کر لی ہے۔ اسے قومی نفسیات میں شامل کرنے کی جدوجہد بلا روک ٹوک جاری ہے۔ فیض کی ایک نظم میں اس خواب کی خوب صورتی سے عکاسی کی گئی ہے:

دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے​/ گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے​/ پائلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے​ / ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے​/ ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے​ / راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے​/ رشک کرتے رہے​/ اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے قانون کو یرغمال بنانے یا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی تعداد کا تناسب خوف ناک حد تک بڑھتا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ادارے جن پر آئین کی کتاب کے تحفظ اور اس کے مندرجات کے بلا تفریق اور بے لاگ اطلاق کو یقینی بنانے کی ذمہ داری تھی، وہ غیر جمہوری جبر کے سامنے بے دم ہو چکے ہیں۔ اس طرح یہ یقین بری طرح مجروح ہواہے کہ لوگ نظام کی شفافیت اور منصفانہ قانون کی عمل داری میں پروان چڑھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ اس بندوبست میں شامل نہیں ہیں جو ملک کو اس طرح چلا رہا ہے کہ عوام کا ریاست سے انصاف ملنے کے امکان پرسے اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔پچھلے دو سال میں تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئےسماج کے مختلف دھڑوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک مسلسل بڑھتی تعداد ملک چھوڑنے کیلئےبے چین ہے۔ یہ ہجرت ریاست اور اس کے مستقبل کیلئے بہت اہم ہے کیونکہ بہرحال یہ عام لوگ ہی ہیں جن کی سرگرمیاں قومی ترقی اور معاشی نمو کا باعث بنتی ہیں۔ جس آسانی کے ساتھ اسے یرغمال بنا لیا گیا اس کی وجہ سے پھیلنے والی مایوسی نے ملک کے مستقبل پر اعتماد کو متزلزل کردیا ہے۔

اس مفروضے نے اس مرض کو مزید سنگین کر دیا ہے کہ طاقت کا مسلسل استعمال لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کرسکتا ہے اور ملکی حالات کے بارے میں ان کی سمجھ کو تبدیل کر سکتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے۔ درحقیقت، اثر عام طور پر اس کے برعکس ہوتا ہے جیسا کہ ماضی قریب میں دیکھا گیا ہے۔ جیسا کہ عمران خان کال کوٹھری میں قید ہونے کے باوجود آئینی اور جمہوری پاکستان کو آمریت کی راکھ سے ابھرتے ہوئے دیکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔ ان کے پیروکار بھی ثابت قدم ہیں کہ ان کے قائد نے جو راہ دکھائی ہے، اس پر چلتے رہیں گے۔ درحقیقت، تمام دستیاب مطالعے کے مطابق ان کی حکومت کے خاتمے اور اس کے بعد ان کے خلاف من گھڑت مقدمات کے اندراج، اور قید کے بعد سے ان کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام فطری طور پر جمہوریت پسند ہیں۔ یہ تعجب خیز بات نہیں کیوں کہ وہ اکثر آمریت کے زیر تسلط رہے ہیں۔ اس کیلئے ان کی ناگواری نے ایک نئے عزم کو جنم دیا ہے کہ وہ اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بامعنی جدوجہد کریں اور آئینی اور جمہوری آزادی کی روشنی کو اس ستم زدہ ملک کے طول و عرض میں پھیلا دیں۔

انتہائی نامساعد حالات کے باوجودہم نجات کی راہ پر ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں جو بے شمار لوگوں کی قربانیوں سے عبارت ہے۔ ان میں سے بعض نے انتہائی قیمت بھی چکائی ، لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ وہ ایک ایسے جمہوری پاکستان کے ہدف پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں جہاں ان کے حقوق کا احترام کیا جائیگا اور ان کی جانوں کا خیال رکھا جائے گا اور جہاں انھیں  نامعلوم جرائم کی وجہ سے عقوبت خانوں کے اندھیروں کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔

آزادی ایک خزانہ ہے اور اس کا کھو جانا ایک ہول ناک سانحہ ۔ اس کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جو اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں اس سے محروم رہے ہیں۔ ان کیلئے یہ ایک ایسا خزانہ ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔ کئی حوالوں سے میں اپنی قید کے ایام میں زندہ ہوں۔ میری قید کے دن نسبتاً مختصر ہونے کے باوجود میری نفسیات پر ان مٹ نقوش چھوڑ گئے۔ ساری دنیا کی دولت کے عوض بھی میںان کا سودا کرنے کا سوچ نہیں سکتا تھا۔

میں ہمیشہ آزادی کا ممنون رہوں گا، وہ آزادی جس کیلئے میں نے ہمیشہ جنگ کی ہے :

الم نصیبوں، جِگر فگاروں / کی صبح افلاک پر نہیں ہے / جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں / سحر کا روشن اُفق یہیں ہے / یہیں پہ غم کے شرار کھل کر / شفق کا گلزار بن گئے ہیں / یہیں پہ قاتل دُکھوں کے تیشے / قطار اندر قطار کرنوں / کے آتشیں ہار بن گئے ہیں

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین