پاکستان ان ملکوں میں ہے جن کی آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر میں نوجوانوں کی آبادی کے تناسب کے پیش نظر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ کیونکہ نوجوان کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں ، وہ جہاںملک و قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، وہیں تخریبی کارروائیوں میں استعمال ہو کر اپنا اور ملک کے نقصان بھی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ذہن میںکچھ کرنے کی تمنا سوار ہوتی ہے اور وجود پرتوانائیوں کی بہار ہوتی ہے اسلئے ان توانائیوںکیلئے آبشاریں بنانی پڑتی ہیں تاکہ وہ سیلاب کی شکل نہ اختیار کر سکیں۔ اصل منصوبہ بندی یہ ہوتی ہے کہ اْن کی جداگانہ صلاحیتوں کو نکھارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ وہ اڑنے کیلئے پَر کھولیں تو امکانات کا وسیع آسماں بھی بانہیں کھولے انھیں خوش آمدید کہنے کو منتظر ہو، باقی کام ان کا ہے کہ وہ کتنی محنت کرتے ہیں اور کس طرح اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔سرکار نے انھیں پلیٹ فارم مہیا کرنا ہوتا ہے۔ پنجاب کی آبادی کا زیادہ حصہ بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے ، ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والے منصوبے شروع ہونے چاہئیں تھے مگر پچھلے کچھ عرصے سے تبدیلی کے نام پر جو اناڑی لوگ پنجاب پر مسلط کئے گئے انھوں نے نوجوانوں کے امیدوں سے بھرے خواب دیکھنے والی آنکھوں کے سامنے ریت کے پہاڑ کھڑے کردئیے، جس سےناامیدی اور بے بسی کی ایسی فضا بنی کہ وہ اپنی امکانات اور وسائل سے بھری دھرتی سے مایوس ہو کر باہر بھاگنے لگے۔ وہ اتنے بد دل ہوگئے کہ غیرقانونی اور خطرناک راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ، کنٹینرز میں دم گھٹنے اور کشتیاں ڈوبنے سے مرنے کی خبریں اکثر گردش میں رہتی ہیں۔یقیناً اس کے اور بھی عوامل ہوں گے مگر پچیس سے پچاس لاکھ لگا کر ملک سے دربدر ہونے والوں کی بربادی میںہر وقت ملک کیخلاف پروپیگنڈہ کرنے اور یہاں سے نکل جانے کی ترغیب دینے والے اینکرز، سیاستدانوں اور متعصب تجزیہ نگاروں کا بھی اہم کردار ہے۔ جو مثبت مشورے کی بجائے منفی راستے کی جانب راغب کرتے رہتے ہیں۔ملک میں موجود وسائل اور ضروریات کے مطابق محنت کا مشورہ بھی دیا جا سکتا ہےمگراپنی لڑائی اور نفرت میں خاندانوں کو برباد کرنے والے کیا جانیں۔دکھ اس بات کا ہے کہ تجرباتی کرداروں نے ملک کو معاشی طور پر کھوکھلا نہیں کیا اخلاقی طور پر بھی کنگال کیا ہے، ذاتی سیاسی فائدے کیلئے نوجوانوں کی زندگیوں سے جو کھیل کھیلا گیا، جھوٹی کہانیاںاور مذہب کارڈ استعمال کرکے انھیں جس طرح گمراہ کیا گیا ،لگتا نہیں تھا مستقبل قریب میں وہ اس فریب اور جھانسے سے نکل سکیں گے مگر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی نوجوانوں کی تعلیم وترقی کو ترجیح بناکر کئے گئے اقدامات دیکھ کر خوشی اور حیرت ہوتی ہے یقیناً یہ ایک مشکل مگر عظیم مشن ہے ،آئے روز کسی نہ کسی تعلیمی ادارے میں نوجوانوں میں گھری مریم نواز کے ارد گرد بہت سے چہروں پر رقصاں خوشی اور تشکر کے احساسات ہر دل کو متاثر کرنے لگے ہیں، بے جا تنقید کرنے والے مخالفین بھی سراہنے لگے ہیں۔
اور ایسا میں نے اپنے حلقہ احباب میں بھی محسوس کیا ہے۔ کل خبریں دیکھتے میری ایک شدید جذباتی دوست کہنے لگی ، یار یہ مریم نواز کیا کھاتی ہے؟ اتنی سردی میں روز طلبا تقریبات میں جاتی ہے ، یہ تھکتی نہیں۔ میں نے کہا رہنما خوراک سے نہیں کچھ ڈلیور کرنے کی لگن سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے کی لگن انھیں اڑائے رکھتی ہے گرنے اور تھکنے نہیں دیتی۔ مجھے اپنی دھرتی کے نوجوانوں کی آنکھوں میں امیدوں کے جگنو جگمگاتے محسوس ہونے لگے ہیں، سی ایم پنجاب نئی نسل کی پلکوں پر رکھےخوابوں کو سچ کرنے کیلئے جس طرح متحرک ہے،اس سے لگتا ہے کہ مایوسی کی فضا چھٹنے لگی ہے اور ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی موٹر وے پر سفر آغاز کرنے لگا ہے کیونکہ اس موٹر وے سے وابستہ معاشی انقلاب کی کمانڈ نوجوانوں کے حوالے کرنے پر عمل جاری ہے۔
غیر محسوس طریقے سے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت بھی جاری ہے ، انھیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف کر دینا ہی خیر کا عمل ہے۔مجھے امید ہے یہ نوجوان کامیا ب انسان بننے کیساتھ ساتھ اچھے انسان بن کر اس سماج میں خیر کی قدروں کو اجاگر کریں گے،ہر سیاسی حکمران کسی ایک نکتےپر فوکس کرتا ہے اور باقی عامل اس کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں۔ مریم نواز نے نوجوانوں کو ترجیح بنا کر جس سفر آغاز کیا ہے،وہ کئی مقاصد کے حصول کو ممکن بنائے گا،آخر میں ایک نیک مشورہ کہ اگر میٹرک تک مختلف ہنر سکھانے کو نصاب میں شامل کر دیا جائے تو اس کے بہت دیرپا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ بیروزگاری کم ہو گی ،ہنرمند افراد کیلئے مختلف ممالک میں قانونی طریقے سے جانا ممکن ہوگا اور زرِ مبادلہ ان خاندانوں اور ملکی معیشت کے استحکام میں معاون ہوگا۔