• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالیہ شمیم

’’ہاں… بولو!‘‘مسلسل بجتی فون کی گھنٹی پر صائمہ نے ریسیور اُٹھا کر کہا۔ ’’کیا بات ہے، بہت جلدی میں ہو، سانس بھی پُھول رہی ہے، کہاں سے بھاگتی آئی ہو؟‘‘نیہا عادت کےمطابق اسٹارٹ ہو چُکی تھی۔ ’’کچھ نہیں، بس آج کل مصروفیت کچھ زیادہ ہے، فٹافٹ کام نمٹا رہی تھی۔ خیر، تم بتاؤ، بڑےدن بعد میری یاد آئی۔‘‘ صائمہ نے قدرے سُکون سے جواب دیا۔ ’’بڑے بھائی کی شادی کی ڈیٹ فکس ہوگئی ہے۔ 

اگلے ماہ کی 7 کو ان شاءللہ نکاح ہے۔‘‘ نیہا نے چہکتے ہوئے بتایا۔ ’’ارے واہ! یہ تو بہت اچھی خبر سُنائی تم نے، آنٹی اور سب گھر والوں کو بہت بہت مبارک باد دینا۔‘‘ ’’سوری! اپناکام خُود کرو، ویسے بھی امّی خاص طور پر تمہارا پوچھ رہی تھیں، بھائی الگ میرا ریکارڈ لگا رہا ہے کہ کہا ں تو اتنی دوستی کہ دن میں دوپہر تک کالج میں ساتھ رہنے کے باوجود شام سے رات تک فون پر گھسی رہتیں اور کہاں اب محترمہ کا دُور دُور تک کچھ پتاہی نہیں۔ لگتا ہے، پھڈا ہوگیا ہے۔‘‘ نیہا نے منہ بگاڑ کرچھوٹے بھائی اسد کی نقل اتاری۔ 

’’خیر، اُس کی توعادت ہے اول فول بولنے کی۔‘‘ صائمہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’اور اُس دن کا بھی اُسے انتظار ہی رہے گا کہ جب ہماری دیرینہ دوستی کسی لڑائی کی نذر ہوگی۔ خیر، مَیں نے سب سے پہلے تمھیں ہی یہ خوش خبری سُنائی ہے، تو اب ساری مصروفیات ایک طرف رکھو اور میرے ساتھ بازار جانے کے لیے کمرکس لو۔‘‘نیہا بہت پُرجوش تھی۔ ’’وہ ایسا ہے نیہا کہ ابھی کچھ دن تو میرے بہت بزی ہیں۔ 

اُس کے بعد ضرور تمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘ صائمہ نےمعذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ ’’ہیں میڈم! اُس کےبعد وقت ہی کیا رہ جائے گا اور پھر اصل کام تو برائیڈل ڈریس کی سلیکشن کا ہے۔ مجھے تو پہلے ہی ڈر ہے، ایک ماہ میں کوئی جوڑا بنانے پر راضی بھی ہوگا یا نہیں۔ زیادہ اِترانے کی ضرورت نہیں ہے، بجائے اِس کے کہ آگے بڑھ کر ذمّےداری لو، محترمہ فرما رہی ہیں کہ ابھی بزی ہوں۔

سیدھی طرح تیار ہوجاؤ، مَیں پک کرلوں گی۔‘‘ ہمیشہ کی طرح ضدی نیہا نے اس کا کوئی عذر نہ مانا۔’’ اچھا ٹھیک ہے، آجاؤ، پھر آج ہی چلتے ہیں۔ لیکن اللہ کے واسطے لسٹ بنا کرآنا، یہ نہیں کہ بازار جا کر سوچو، کیوں آئے تھے، کیا لینا تھا؟ ترتیب اور تمیز سےخریداری کرنا ہوگی۔‘‘ ’’اچھا اچھا، میری ماں!بس زیادہ نصحیتیں نہیں۔“ حسبِ عادت نیہا نے صائمہ کی نصیحت پر کوئی کان نہ دھرا۔

شہر کے معروف بوتیک پر وہ دونوں ڈھیروں برائیڈل ڈریسز آگے پھیلائے کُھسر پسر کر رہی تھیں۔ جونیہا کو پسند آرہا تھا، وہ صائمہ کو اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ آخرکار، دونوں ہی کسی اور جگہ دیکھنے کے لیے اُٹھ گئیں۔ آدھا دن اِسی تلاش میں گزر گیا، بلکہ اگلے کئی دن بھی یہی صورتِ حال رہی۔ اور پھرآخر کار ایک جگہ دونوں ہی کو کلر، کام اور اسٹائل پسند آگیا، مگر اب دونوں میں ایک اور بحث چِھڑچُکی تھی۔’’آخرتم کو سلیولیس پر کیا اعتراض ہے، ساری شو آستین اور اُس پر لائننگ سے ختم ہورہی ہے۔‘‘ 

نیہا کے لہجے میں حیرانی تھی۔ ’’اور تم کو بغیر آستین ہی کا کیوں سِلوانا ہے؟‘‘صائمہ کا لہجا بھی تیکھا تھا۔ ’’ارے اِس ڈیزائن پرآستین اچھی نہیں لگےگی، اور پھر آج کل فیشن بھی یہی ہے۔ تم کیا دلہن کو پردے کی بوبو بنانے کے چکرمیں ہو؟ شادی میں ایک سے بڑھ کر ایک فیملی آئے گی، لوگ ہمیں دقیانوسی سمجھیں گے۔ ایک تو لاکھوں کا جوڑا بناؤ اور پھرفل آستین کے چکر میں ساری شو ہی خراب کردو۔‘‘ 

نیہا جھنجلا رہی تھی۔ ’’تو بہن، پھر مجھے کیوں ساتھ لائی ہو، تمہارے بھائی کی شادی ہےناں، جو جی چاہتا ہے، وہ کرو۔‘‘صائمہ باقاعدہ رُوٹھ چکی تھی۔ ’’اُف میرے اللہ! یہ تم کہہ رہی ہو، کیا جانتی نہیں کہ تم میرے لیے کتنی اہم ہو، کیاعدیل صرف میرا ہی بھائی ہے، ہاں مَیں ہی پاگل ہوں ناں، جو تم کو بہن سمجھتی رہی۔“نیہا نے رندھےلہجےمیں کہا۔’’تومیری پیاری بہنا! پھر مان کیوں نہیں لیتی میری بات۔“

جواباً صائمہ نے نیہا کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’یار! ماننےوالی بات بھی تو ہو، اتنے دِنوں کی خاک چھان کر ایک چیز پسند آئی ہے، اور تم آستینوں ہی پر اٹک گئی۔“ نیہا واپس اپنی جون میں آچُکی تھی۔ ’’مَیں یا تم…‘‘صائمہ کا لہجہ بھی ٹھوس تھا۔ ’’مَیں تم کو سلیولیس کی اجازت یا مشورہ ہرگز نہیں دوں گی، باقی تمھاری مرضی۔‘‘ ’’ارے تو کوئی لاجک بھی تو دو ناں،سلیولیس میں کیا قباحت ہے؟‘‘ ’’لاجک…؟ تم اپنے دل سے پوچھو، کیا تم کسی مجمعے میں بِنا آستین کے آجاؤگی، تم پہن لوگی سلیولیس شرٹ؟‘‘ ’’ارے تو یہاں میرا کیاذکر، مَیں دلہن تھوڑی ہوں۔‘‘ 

نیہا نے منمناتے ہوئے کہا۔ ’’تو دلہن لڑکی نہیں، کوئی جنس ہے، جسے بازار میں سب کی نگاہوں کا مرکز بنانے کے لیے سجادو، جو تم اپنےلیے نہیں پسند کرتی، وہ دلہن کے لیے کیوں، اور صرف ایک منطق کہ جدید دَورہے، تو کیا جدّت کا مطلب صرف بےلباسی ہی ہے؟ تمہارا دل، تمہارے ایمان سے بڑھ کر ہوگیا۔ خاندان میں شوشا اور واہ واہ کے چکر میں تم اپنی شناخت بھول گئی۔ میری بہن، تم جس جدید دَور کے تقاضوں کی بات کر رہی ہو، وہ تو خُود اپنی جڑوں تک گلا سڑا ہوا ہے۔ 

اگر سرِعام بےلباسی، سفلانہ خواہشوں کی تکمیل ہی ماڈرن ازم ہے، تو لعنت ہو، ایسی جدیدیت پر۔ صابر بنو، نیہا صابر۔‘‘ صائمہ کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ ’’یہ کبھی کبھی کیا ہوجاتا ہے تمھیں، بولنے پرآتی ہو، تو بولتی چلی جاتی ہو، کچھ سوچ کرتو بولا کرو۔ اب یہاں صبر کہاں سے آگیا؟‘‘ نیہا آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھےجا رہی تھی۔ ’’ہاں، صابر ہی کہا ہے مَیں نے، ہم لوگوں نے صبر کا مطلب صرف میّت پر تسلی ہی کو سمجھ لیا ہے، جب کہ صبر دراصل زمانے کے بدلتے حالات میں اپنا ذہنی توازن برقرار رکھنے کا نام ہے۔ زمانہ بدل رہا ہے، تو کیا ہم اپنا توازن کھو دیں۔ وہ بےلباس ہورہا ہے، تو ہم بھی شرم و حیا سے عاری ہوجائیں۔ وہ لُوٹ کر کھا رہا ہے تو لُوٹنا ہمارا بھی حق بن جائے، وہ گندگی پھیلا رہاہے، تو ہم بھی گندگی پھیلانے کو اپنا اختیار سمجھیں۔ 

اُس نے سُود، رشوت، غبن کے ذریعے راتوں رات دولت اکٹھی کرلی، تو ہم بھی کیوں پیچھے رہیں۔ بولو، کیا یہ سب ٹھیک ہے؟ ابھی کوئی میٹھی چیز بغیر ڈھکے رکھ دو، کیا بے شمار مکھیاں بھنبھنا نے نہیں لگیں گی، تو اگر تم خُود اپنا حُسن، نسوانیت کُھلی چھوڑ رہی ہو اور وہ بھی صرف لوگوں کی ستائش، دکھاوے کے لیے، تو پھر صرف لوگوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرائو۔ مَیں پھر یہی کہوں گی نیہا! صبر کرو، صبر، خوشیوں میں بھی صبر کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے، وہ تمہارے خلاف حجّت نہ بن جائے۔‘‘ صائمہ کے لہجے میں درد تھا۔ 

’’اوکے بابا! مَیں تو بھول ہی گئی تھی کہ میرے ساتھ بہترین مقررہ موجود ہے، باز آئی مَیں، بخشو مُجھے اب۔‘‘ نیہا نے ہاتھ جوڑ دیئے۔’’مَیں سنجیدہ ہوں نیہا۔‘‘ صائمہ نے گلوگیر لہجےمیں کہا۔ ’’تم بےشک مذاق اڑاؤ، لیکچر سمجھو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم نے خُود پر ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھا لیے ہیں اور اپنی اصل شناخت بُھول بیٹھے ہیں۔‘‘ ’’کوئی نہیں بُھلا رہا اپنی اصل شناخت، چلو، بس اب موڈ ٹھیک کرو، نہیں بنواتی مَیں سلیو لیس، اب خوش۔ چلو، ابھی دوسرے کام بھی نمٹانے ہیں۔‘‘

بظاہر تو نیہا نے صائمہ کو اطمینان دلا دیا تھا، لیکن اُس نے کیا وہی، جس کا وہ دل میں تہیہ کرچُکی تھی۔ اور اب شادی کے روز اُس کی بھابی سفید سلیولیس عروسی لباس میں بقول اُس کے آسمان سے اُتری کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔ مخلوط گیدرنگ میں ہرفرد کی نگاہیں دلہن ہی پر ٹکی تھیں اور فخروغرور سے نیہا کی گردن میں تو جیسے کلف آگیا تھا۔ 

لوگوں کے ستائش بھرے جُملوں میں وہ اپنی عزیز ترین سہیلی کو تو جیسے فراموش ہی کرچُکی تھی کہ کہاں اُن کا ایک دوسرے سے ملے یا بات کیے بغیر دن نہیں گزرتا تھا اور کہاں اب وہ شادی کے ہنگاموں میں صائمہ کی نصیحتیں تو دُور، خُود صائمہ ہی کوبھول گئی تھی۔ اُسے ہمیشہ سے اپنی پسند، ناپسند کے معاملے میں کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں ہوتی تھی اور یہ تو اُس کے گھر کی پہلی شادی کا معاملہ تھا۔

دوسری طرف صائمہ کو تو نیہا کی بے رُخی نے گویا مار ہی ڈالا تھا۔ اُس نے کئی بار فون، میسیجز کیے، بلکہ اپنی ساری انا بالائے طاق رکھ کر اُس کے گھر ملنے بھی چلی گئی، لیکن وہ صائمہ سے ملنا ہی نہیں چاہ رہی تھی، تو مسلسل نظر انداز کر رہی تھی، حتٰی کہ شادی کا کارڈ بھی اُس کی امّی دینے آئیں کہ وہ مصروف ہے۔

ایک لمحے کو تو اُس کا دل چاہا کہ وہ شادی میں شرکت نہ ہی کرے، لیکن پھرسالوں کی دوستی، اُس کی سچّی محبّت نے اُسے مجبور کر دیا، لیکن اب وہ جب سے تقریب میں بیٹھی تھی، مسلسل پچھتا رہی تھی۔ مخلوط،کُھلاڈُلا ماحول اور اُس پرنیہا کی بےرُخی، بار باراُس کی پلکیں نم ہو رہی تھیں۔ سو، اُس سے زیادہ دیر ٹھہرا نہیں گیا اور وہ بِنا کھانا کھائے خاموشی سے اُٹھ کے واپس چلی آئی تھی۔

گھر پہنچی تو اُس کی متورّم آنکھیں، غم سے بوجھل چہرہ دیکھ کر امّی فوراً سمجھ گئیں۔ ’’اور بنوبی ملاّنی، اپنے نظریات، مشورے بغیر مانگے مفت بانٹتی پِھرو، یہ تو ہونا ہی تھا۔ بلاضرورت لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی کرو گی، تو یہی ہوگا۔ یا تو اپنی پسند بدل لو، یا پھردوست، لیکن یہ رونا دھونا بند کرو۔ 

منہ، ہاتھ دھو اور سب کچھ دفع کرکے کھانا کھانے آؤ۔“ امّی تو صائمہ کو جھاڑ پلا کر کچن میں چلی گئیں، لیکن… صائمہ کے سِسکتے وجود پر جیسے یک دَم کسی نے پھایا رکھ دیا۔ ’’یا تو پسند بدل لو یا دوست۔‘‘ امّی کا جملہ اُس کے دل و دماغ میں پیوست ہو کے رہ گیا تھا۔ اور اُس نے دوست بدلنے کے حتمی فیصلے پر پہنچ کے اپنی آنکھیں پونچھ ڈالیں۔ سُکون و اطمینان کی ایک گہری سانس لی۔ ’’بے شک، میری پسند میرے رب کی پسند ہے، مجھے اُسے بدلنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

امید (صبا احمد) مردانی ممتا(رخسانہ شکیل) ذوقِ پرواز، کنافہ (ہما عدیل) یادیں (حمیرا علیم) انتظار (حمیرا بنتِ فرید) بدلتے رنگ، بچپن (افروز عنایت، حیدرآباد) خواب سراب، ایک تھا گھبرو (غزالہ اسلم) بدنصیب (مبشّرہ خالد) افسانہ (لبنیٰ اسد) ایک شعر، ایک کہانی (انیسہ منیر، کراچی) پسند کی شادی (آفاق اللہ خان، حیدرآباد) مجبوری (شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی) ایمان والی ماں کی دُعا (ارم نفیس، ناظم آباد، کراچی)۔