عشرت زاہد
ثروت بیگم بے حد سلجھی ہوئی، پُروقار شخصیت کی مالک تھیں، اُس پر خوش اخلاق بھی تھیں۔ اور پھر خُوب صورت گفتگو کا ملکہ بھی حاصل تھا۔ پچھلے سال ہی یونی ورسٹی سے معلمہ کے عہدے سے سبک دوش ہوئی تھیں اور اب اپنی ہم خیال خواتین کے ساتھ مل کر ایک این جی او چلا رہی تھیں۔ جس کے تحت معاشرے کی بے سہارا، مظلوم خواتین کو قانونی مدد فراہم کی جاتی تھی۔ وہ ایک اچھی سوشل ورکر کی شہرت رکھتی تھیں، اکثر اخبارات میں اُن کا ذکرِ خیر ہوتا رہتا۔
اُن کے شوہر اسد صدیقی بھی یونی ورسٹی میں معلم رہ چُکے تھے اور اِن دنوں تحقیقی مقالہ جات لکھنے والے طلبہ کی رہنمائی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ دو بیٹے تھے، بڑا ثاقب سی اے کر چُکا تھا اور چھوٹا شعیب سافٹ ویئر انجنیئر بننے کے بعد اب اپنا سافٹ ویئر ہاؤس چلا رہا تھا۔ ثاقب اپنا سی اے مکمل کرنے کے چکر میں لگ بھگ 30 برس کا ہو چُکا تھا اوراب جب سی اے مکمل ہوا تو گھر میں اُس کی شادی کا ذکر چِھڑا اور تب ہی ثاقب نے اپنی کلاس فیلو شمائل سے متعلق بتایا کہ وہ اُسے پسند کرتا ہے۔
گندمی رنگت پر کھڑے نقوش والی شمائل، ثروت بیگم کو دیکھتے ہی پسند آگئی تھی۔ وہ اُن دنوں یونی ورسٹی میں جُز وقتی لیکچرار کے طور پر ملازمت کر رہی تھی۔ اور ہر طرح سے ثاقب کے لیے مناسب جوڑ تھی۔ والدین کی اکلوتی اولاد، مختصر خاندان، پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے لوگ تھے۔ سو، بات طے پا گئی۔ اور اب شادی میں کچھ ہی دن باقی تھے۔ دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں تقریباً مکمل ہو چُکی تھیں۔ سب ٹھیک چل رہا تھا۔ ایسے میں وہ اَن ہونی ہو گئی، جوکسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھی۔
اسد صدیقی صاحب نے جیسے ہی بیگم کی زبانی یہ خبر سُنی، اُن کے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اُنہوں نے فوراً اپنا موبائل چیک کیا۔ ہر چینل پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی، جسے دیکھ کران کے اوسان خطا ہونے لگے۔ کچھ دیر بعد حواس مجتمع کر کے وہ گھر جانے کے لیے نکلے۔ سارا رستہ ذہن میں اندیشے کلبلاتے رہے۔ گھر پہنچے تو ثاقب بھی گھر آچُکا تھا۔
سب ہی متفکّر تھے۔ اتنے میں چھوٹا شعیب پریشان حال گھر میں داخل ہوا۔ ’’آپ کو پتا چلا…؟؟‘‘ لیکن پھر جیسےہی سب کےچہرے دیکھے، تو صورتِ حال کا خُود ہی اندازہ ہوگیا۔ ’’بھائی! کیا آپ کی بات ہوئی، کیا یہ شمائل بھابی ہی ہیں؟‘‘ ’’ہاں، میری انکل سے بات ہوئی ہے۔
وہ شمائل ہی ہے۔ ہر جگہ تو خبر چل رہی ہے۔ اِس قسم کی خبریں کتنی تیزی سے وائرل ہوتی ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں اُس کی شکل بہت واضح ہے۔ وہ شمائل ہی ہے۔ وہ لوگ خُود بھی بہت شاکڈ ہیں۔ پتانہیں، کیامعاملہ ہے۔ نہ جانے کون لوگ تھے!‘‘ ’’بھائی! ابھی اُن کو آپ کے دلاسے، تسلی کی سخت ضرورت ہوگی۔ پتا نہیں، وہ کس حال میں ہوں گی۔ اِس وقت آپ کو اُن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ویسے معاملہ کیا ہے، یہ میری بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘ ’’کیسی تسلی شعیب؟ اب کیا باقی رہ گیاہے؟‘‘یہ کہہ کر ثاقب نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ وہ سسک اُٹھا تھا۔
شعیب بھی سخت پریشان، لیکن بھائی کے رویے پر حیران تھا۔ ’’بھائی! آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں، لیکن اِس وقت آپ اُن کے گھر جائیں۔ وہ لوگ اِس وقت انتہائی تکلیف میں ہوں گے۔‘‘ ثروت بیگم بھی سُن بیٹھی ہوئی تھیں۔ ’’یااللہ…یہ سب کیا ہو گیا۔ کتنا ارمان تھا، اس شادی کا۔ اللہ کو کیا منظور ہے، یہ وہی جانتا ہے۔
شُکر ہے ابھی شادی نہیں ہوئی تھی، ورنہ ہم دنیا کو کیا منہ دکھاتے؟‘‘ ثروت بیگم بولیں، تو اسد صاحب نے اُن کی طرف دیکھا۔ ’’کیوں بیگم صاحبہ!ابھی سے حوصلہ ہار گئیں؟ آپ کی این جی او تو اِس طرح کی بچیوں کی مدد کرتی ہے، تو آپ شمائل کی مدد نہیں کریں گی؟‘‘ اُن کا لہجہ طنزیہ تھا۔ ’’بس تقریر اور عمل میں یہی فرق ہوتا ہے۔ آج خُود پر پڑی ہے، تو ساری باتیں ہوا ہوگئیں۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائے۔ ثاقب نے پریشان ہو کر ماں کی جانب دیکھا۔ اُس کا دل شمائل کےلیے ہمک رہا تھا، لیکن دماغ، دل کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
اُدھر ثروت بیگم کی سوچ سوچ کر حالت خراب ہونے لگی تھی۔ ’’اچھا خاصا رشتہ تھا۔ شادی سر پرہے، ہال بُک ہے۔ دعوت نامے بٹ چُکے۔ اب کیا ہوگا۔ لیکن اس سب میں بچّی کا کیا قصور ہے؟‘‘ بالآخر وہ بولیں۔ مگر ثاقب شادی کے نام پرگومگو کی کیفیت میں تھا۔ ’’بابا! آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ شعیب منمنایا۔’’بیٹا!اِس گھر کے تمام فیصلے تمہاری ماں ہی کرتی ہے۔
لیکن پہلے چل کر اُن سے بات ضرور کرنی چاہیے۔‘‘ وہ جب اُن کے گھر پہنچے تو ہرطرف ویرانی کا احساس ہو رہا تھا۔ باہر کی بتیاں بند تھیں۔ گھر کے اندر بھی موت کا ساسناٹا چھایا ہوا تھا۔ شمائل بہت تھکی، ٹُوٹی ہوئی لگ رہی تھی۔ ثاقب کے دل میں ٹیس سی اٹھی۔ کتنے ارمان تھے۔ کیا کیا سوچا تھا۔ وہ دن بھر پولیس اور مختلف چینلز کے رپورٹرز کا سامنا کرتے کرتے پریشان ہوگئی تھی۔ سو، اُنہیں دیکھتے ہی سسک پڑی۔
ثروت بیگم نے شمائل کو گلے لگایا اور سنجیدہ شکل بنا کر ایک جانب بیٹھ گئیں۔ شمائل کو توقع تھی کہ وہ تسلی دیں گی، لیکن ہر دَم صدقے واری جانے والی ثروت بیگم کا یہ اجنبی سارویہ اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔ اُس کا دل ہولنے لگا۔ شمائل کی امّی نے اپنی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا حوصلہ کرو۔ اللہ کا شُکر ہے کہ ہماری کوئی نیکی کام آ گئی اور تم صحیح سلامت واپس آ گئی، ورنہ صبح جب وہ ویڈیو دیکھی، تو میرا تودل ہی بند ہوگیا تھا۔ اللہ کا شُکر ہے، میری بچّی زندہ سلامت گھر آگئی۔ ’’ویسے، شمائل ٹھیک تو ہےناں؟‘‘ ثروت بیگم نے عجیب سے لہجے میں پوچھا۔ ’’الحمدللہ، بالکل ٹھیک ہے۔
آپ جیسا سوچ رہی ہیں، ویسا قطعاً کچھ نہیں۔ ہاں بیٹا، تم اِن کو بھی بتائو، جو تمھارے ساتھ ہوا۔‘‘ تب شمائل سسکتے ہوئے بولی۔ ’’مَیں جیسے ہی یونی ورسٹی کے گیٹ پر پہنچی، ایک کالی پجیرو میرے پاس آ کر رُکی اور اُس میں سےدو تین آدمی اُترے۔ اُنہوں نےمیرے کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی مجھ پر چادر ڈالی اور اُٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا۔
مَیں نے چیخنے چلّانے، احتجاج کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے میرے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد، ایک بڑے سے صحن کے اندر گاڑی رُکی۔ شاید وہ اندرونِ سندھ کا کوئی علاقہ تھا۔ وہ مجھے گھسیٹ کر اندر ایک بڑے کمرے میں لے گئے، جہاں ایک وڈیرہ نما شخص بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اُس نے چیخ کرکہا۔
’’یہ کسے اُٹھا لائے ہو، بد بختو؟‘‘ اُس نے ان اغوا کاروں کو سخت بُرا بھلا کہا، پھر مجھ سے معافی مانگی کہ ’’ادّی، میری بہن! مجھے معاف کرنا۔ یہ لوگ غلطی سے تمہیں اُٹھا لائے ہیں، ہمیں تو کسی اورکی تلاش تھی۔‘‘ پھر اجرک منگوا کر میرے سر پر ڈالی اور عزت سے مجھے رخصت کیا۔ وہ بار بار معافی مانگتا رہا، لیکن مَیں اُسے کبھی معاف نہیں کروں گی کہ مَیں اب کس کس کے سوالوں کےجواب دیتی رہوں۔ کب تک اپنے ناکردہ جرم کی سزا کاٹتی رہوں۔‘‘ اتنا کہہ کے وہ پُھوٹ پُھوٹ کر رو دی تھی۔
اب ثروت بیگم نے اُٹھ کراُس کےسر پر ہاتھ رکھا، اور بولیں۔ ’’اللہ تمھارے لیے آسانی کرے، ہماری این جی او اس پر کام کرےگی۔ تم صبر سے کام لو، مجھے بہت دُکھ ہے کہ تمھارے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا۔ تم فکر نہ کرو، اگر اُن لوگوں پر کیس کرنا چاہو، تو ہم تمھاری مدد کریں گے۔ اچھا، اب ہمیں اجازت دیں۔‘‘اور یہ کہتے ہوئےجانےکے لیے اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ شمائل کے ابّو نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’آپ لوگ بیٹھیں ناں۔ نکاح کے متعلق بات کریں۔ اُسی تاریخ پر رکھنا ہے یا…‘‘ وہ خاصے متفکر سے تھے۔ ’’میری معصوم بیٹی بالکل سچ کہہ رہی ہے۔ اللہ کے کرم سے وہ بالکل محفوظ رہی، ورنہ نہ جانے کیا غضب ہو جاتا۔‘‘
انہوں نے اپنی بیٹی کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا۔ ’’ثاقب بیٹا!آپ بتائیں۔ آپ کو تو اطمینان ہے ناں؟‘‘ وہ ثاقب کی طرف دیکھ رہے تھے اور ثاقب اُن سے نظریں چُرا کر اپنے والدین کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اسد صدیقی نےگلا کھنکارتے ہوئے کہا۔ ’’ہم سوچ کر بتاتے ہیں کہ آگے کیا اور کیسے کرنا ہے۔ کیوں، ثاقب ٹھیک ہے ناں؟‘‘ تو ثاقب نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔ ’’جی، مجھے کچھ وقت چاہیے۔‘‘ مگر…شمائل حیرت، رنج، غصّے اور ذلّت کے مِلے جُلے احساس کے ساتھ مُٹھیاں بھینچ کرکھڑی ہو گئی اورسُرخ ہوتے چہرے کے ساتھ ثاقب کو مخاطب کیا۔’’کیا مطلب ہے ثاقب! تم …تم میرے ساتھ یہ نہیں کرسکتے۔
شادی میں صرف ایک ہفتہ باقی ہے۔ اور تم سوچ کر بتائو گے؟؟‘‘ اُس کی آواز رندھ گئی تھی۔ آنکھیں برسنا شروع ہوگئی تھیں۔ شمائل کی امّی نے بھی ثاقب کی طرف دیکھا۔ ’’لیکن بیٹے…تم دونوں تو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو۔‘‘ ’’ہاں یقیناً آنٹی! لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اگر وہ فوٹیج وائرل نہ ہوتی، تب بھی کچھ سوچا جاسکتا تھا۔ اب اِس قدر بدنامی کے بعد یہ سب اتنا آسان نہیں رہا۔‘‘ شعیب جو اب تک خاموش تھا، ثاقب کے اتنے تلخ جواب پر، اُس کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔ ’’بھائی…!!‘‘ ثاقب نے اُس کی طرف دیکھا۔ ’’شعیب! ابھی گھر چلتے ہیں۔
ہم سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔‘‘ اسد صدیقی صاحب نے بھی بےچینی سے پہلو بدلا۔ ’’شعیب! ثاقب ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ابھی گھر چلتے ہیں۔‘‘ اتنے میں، اتنی دیر سے ضبط کیے بیٹھی شمائل نےثاقب کے روبرو آکےکہا۔ ’’آپ لوگ میری وجہ سے آپس میں نہ الجھیں۔ ثاقب!آپ مجھےصرف ایک بات کا جواب دیں کہ آپ کو میری پاکیزگی پر کوئی شک ہے؟ اور کیا آپ اِن حالات میں مجھ سے شادی کے لیے راضی ہیں…ہاں یا نہیں؟‘‘ ثاقب نے ثروت بیگم کی طرف دیکھا اور گردن جُھکا لی۔
شمائل کے ابّو نے اُسے اندر جانے کو کہا، لیکن اُس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میری زندگی کا معاملہ ہے۔ اِسے میں ہی ہینڈل کروں گی۔ ’’تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ’’آپ اس شادی سے انکار کر رہے ہیں، تو ٹھیک ہے، مجھے منظور ہے۔ جس شخص نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کیے تھے، وہ مجھےزندگی کی اِس پہلی مصیبت ہی میں تنہا چھوڑ رہا ہے، تو اب مَیں خُود اس رشتے کو آگے بڑھانا نہیں چاہوں گی۔ آپ سب تشریف لے جا سکتے ہیں۔‘‘ شمائل کے دو ٹوک انداز پر سب اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
’’رُک جائیےآپ لوگ… بھائی! کیا آپ کا بھی یہی آخری فیصلہ ہے؟‘‘شعیب تقریباً چلّا کر بولا تھا۔ جواباً ثاقب خاموش رہا۔ ’’تو ٹھیک ہے پھر، شمائل! مَیں شعیب صدیقی آپ سےدو سال چھوٹا ہوں، لیکن برسرِ روزگارہوں۔ اگر آپ مجھے قبول کرلیں، تو مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ مَیں نہ صرف آج آپ کےساتھ کھڑا رہوں گا بلکہ بہت عزت سے آپ کو یہاں سے رخصت کروا کے بھی لے جاؤں گا۔ اور اِن شااللہ اُسی دن، اُسی تاریخ کو۔‘‘ شعیب کا لہجہ اتنا حتمی تھا کہ کسی کی ایک لفظ بولنے کی جرات نہ ہوئی، البتہ شمائل کی آنکھوں سے تشکّر و اطمینان کے موتی ضرور بہہ نکلے تھے۔