• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس کا دماغ بری طرح الجھ چُکا تھا۔ شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی نہ جانے کیوں، کب اور کیسے اُس کا دل مُراد کی طرف کھنچنے لگا، اور دھیرے دھیرے وہ اُس کے حواس پر چھاتا چلا گیا۔ انٹرنیٹ پر اُس کی تحریریں پڑھتی تو اُسے لگتا، جیسے یہ اُس کے اپنے دل کی آواز ہے۔ مُراد کے احساسات، اُس کی سوچ اور اُس کے خیالات، مکڑی کے جالے کی طرح اُس کےدل ودماغ کو اپنی لپیٹ میں لیتے چلے گئے۔ 

پہلے پہل وہ صرف اُس کی تحریروں کے سحر میں کھوئی رہی، پھر اُس نے سوچا ایسی منفرد ونایاب سوچ کا حامل خُود کتنا نفیس انسان ہوگا؟ اور رفتہ رفتہ وہ اُس اَن دیکھی شخصیت کی جیسے اسیر ہوگئی۔ پھر غیرارادی طور پر اُس کا تقابل اپنے جیون ساتھی علی سے کرنے لگی۔ مُراد کے منفرد خیالات کے مقابلے میں اُسے اپنے شوہر کی سوچ بہت عامیانہ اور سطحی سی محسوس ہوتی۔ 

مُراد کا ماننا تھا کہ شوہرکو بیوی کی اُتنی ہی عزت کرنی چاہیے،جتنی کہ وہ چاہتا ہے کہ بیوی اُس کی کرے اور علی؟ علی کا رویہ یہ ظاہر کرتا تھا کہ مجازی خدا ہونے کی حیثیت سے تمام تر عزت و احترام کا حق دار صرف وہ ہے اور بیوی کی حیثیت پیر کی جوتی سے زیادہ نہیں۔ مُراد کی سوچ تھی کہ دن بَھر میں جتنا وقت بیوی، شوہر کی خدمت گزاری میں صرف کرتی ہے، اُس کے لیے کھانا بناتی، اُس کے گھر، بچّوں کی دیکھ بھال کرتی، اُس کے کپڑے دھوتی، استری کرتی ہے، تو شوہر کو بھی بطور تشکّر اپنے فارغ وقت کا ایک بڑا حصّہ اپنی بیوی کے نام کردینا چاہیے، جس میں وہ اُس سے بات چیت کرے، اُس کے مسائل، دُکھ درد سُنے، اُس کی دل جوئی کرے، اُسے گھمانے پِھرانے لے جائے اور بیوی کو یہ احساس دلائے کہ وہ اکیلی نہیں، اُس کا شوہر ہر لمحہ اس کےساتھ ہے۔ کیوں کہ بیوی کےساتھ صرف ضرورت کا تعلق رکھنا، اُس کی بے لوث خدمات کی توہین ہے۔ جب کہ علی کو تو اُن باتوں سے کوئی سروکار ہی نہ تھا۔

صبح دفتر، شام دوست اور رات میں لیپ ٹاپ، اُس کے نزدیک بس یہی زندگی تھی۔ بیوی کا نام تب ہی زبان پر آتا، جب کوئی ضرورت ہوتی، وگرنہ وہ دنیا میں ہے بھی یا نہیں، علی کو اِس سے کوئی واسطہ، مطلب نہیں تھا۔ اِسی طرح ہر معاملے میں اُن دونوں کے خیالات میں زمین، آسمان کا فرق صاف نظر آتا تھا۔ اُسے پتا ہی نہیں چلا اوردھیرے دھیرے علی سے اُس کا جذباتی تعلق کم زور ترہوتا چلا گیا۔ بات بات پر علی اوراُس کے بیچ بحث ہونے لگی، پھرتُو تُو، مَیں مَیں شروع ہوگئی۔ جھگڑے بڑھتے ہی چلےگئے اور آخرکار نوبت علیحدگی تک آن پہنچی۔

اُسے لگنے لگا تھا کہ اب اس کا گزارہ علی کے ساتھ ممکن نہیں رہا، وہ مُراد کے خُوب صُورت خیالات کی اسیر ہو چُکی تھی۔ اکثر وہ سوچا کرتی کہ مُراد کی بیوی دنیا کی خوش قسمت ترین عورت ہوگی۔ اُسے کتنی عزت، مان، تکریم حاصل ہوگی۔ یہی سوچ کر جب وہ اپنی زندگی پر غور کرتی تو خُود اپنی ہی نظروں میں گرجاتی۔

وہ سارا سارا دن ملازمہ کی طرح کاموں میں جُٹی رہتی۔ کھاتے پکاتے، پہنتے اوڑھتے اور کہیں آتے جاتے، شوہر کی پسند، ناپسند کی فِکروں میں گُھلی جاتی، پھر بھی صلہ کیا ملتا؟ ذرا سی کوتاہی پر علی اُس کی ساری محنتوں، ریاضتوں پر پانی پھیر کےرکھ دیتا۔ طعنے دینا، اونچی آواز میں چیخ پکار کرنا۔ بس یہی سب آتا تھا علی کو۔ خُود کو بادشاہ سلامت سمجھتا ہے اور مجھے کوئی کنیز۔ وہ اکثر یہی سوچ سوچ کر کڑھتی رہتی۔ اور مُراد! ابھی کچھ دن پہلے ہی اُس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ’’مجھ سے کسی نے پوچھا کہ گھر میں کس کا حُکم چلنا چاہیے؟ مجھے اُس کی بات سن کر ہنسی آگئی۔ 

مَیں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نہایت محبّت سے اُسے صرف اتنا کہا۔ بھائی گھر کو گھر سمجھو، کسی بادشاہ کا دربار نہیں، جہاں حُکم چلانے کی ضرورت پیش آئے۔‘‘ ایسی ہی باتوں نے اُس کا مَن موہ لیا تھا۔ وہ علی سے بہت دُور ہو گئی تھی، مگر پھر بھی اندر ایک خلش تھی، اُس کا ضمیر اُسے کچوکے لگاتا رہتا تھا، جیسے وہ کچھ ٹھیک نہیں کر رہی، کوئی چوری کررہی ہے۔ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ وہ ایک عجیب الجھن کا شکار تھی۔ شاید وہ علی کو چھوڑ بھی نہیں پا رہی تھی اور اُس کے ساتھ رہ بھی نہیں سکتی تھی۔

اُس نے سوچا کہ آخری فیصلے سے پہلے اُسے علی سےایک بار بات کرنی چاہیے۔ اِس فیصلے سے اُس کے دل کو سکون سا آگیا ۔ اُس نے طے کرلیاکہ اگر اِس بار علی نےاُس کی بات پر دھیان نہیں دیا، تو وہ سچ میں اُس سے علیحدگی اختیار کرلےگی۔ رات جب علی اپنے لیپ ٹاپ پر بیٹھا کام کررہا تھا، تویہ جانتے ہوئے بھی کہ علی کام کرتے ہوئے کسی کی موجودگی یا مداخلت پسند نہیں کرتا، وہ علی کے پاس جا بیٹھی۔ 

صبح ہی اُس کی علی سے زبردست جھڑپ ہوئی تھی کہ الارم پر اُس کی آنکھ نہیں کُھلی اور علی آفس سے لیٹ ہوگیا تو اُس نے، چیخ چیخ کر گھر سر پر اُٹھا لیا۔ عام دنوں میں تو وہ چپ چاپ سُن لیا کرتی تھی، مگر اب حالات بدل گئےتھے۔ اب علی کےچیخنے پروہ اُس سے زیادہ چیختی تھی۔ اُس نے بھی چلّا کر کہہ دیا کہ ’’صُبح اُٹھنا اور وقت پر آفس جانا آپ کی ذمّے داری ہے۔ 

مَیں اپنی ذمّےداریاں خُود نبھاتی ہوں اورآپ اُن میں کوئی مدد نہیں کرتے، تو کل سےاپنا الارم خُود لگائیں اور خُود ٹائم پر اُٹھ کے آفس جائیں۔ مَیں آپ کی کوئی کنیز یا باندی نہیں ہوں، جو آپ کو روز جگاؤں اور ایک دن دیر ہوجانے پر آپ کی پھٹکار سہوں۔‘‘علی بھی بکتا جھکتا بِنا ناشتا کیے ہی دفتر چلا گیا تھا۔ 

اِس وقت بیوی کو آتے دیکھا، تو علی نے، لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر تیزی سے چلتی انگلیاں روک کر استفہامیہ نظروں سے اُس کی طرف گھورتے ہوئے کہا۔ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے، َمیں نے الارم سیٹ کرلیا ہے، کل سے آپ کو مجھے اُٹھانے کے لیے تکلیف فرمانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اور دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا۔ وہ تڑپ اُٹھی۔ ’’علی! یہ کیا بات ہے؟ آپ ہر وقت مجھ پر طنز ہی کیوں کرتے رہتے ہیں؟ کس طرح بات کررہے ہیں یہ آپ مجھ سے؟‘‘وہ قریباً رو دی تھی۔

علی نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔ ’’اب کیا غلط کہہ دیا میں نے؟ صُبح مَیں اونچی آواز میں بولا، آپ نے فرمایا کہ ’’دھیمے لہجے میں بات کیا کریں مجھ سے۔‘‘ مَیں بے تکلفی سے بات کرتا ہوں تو آپ فرماتی ہیں کہ ’’تم، تُو تڑاخ کا استعمال پڑھے لکھوں کو زیب نہیں دیتا۔‘‘ اب تو مَیں نہایت تمیز اور شائستگی سے خالص پڑھے لکھے لوگوں کے انداز میں بات کررہا ہوں تو آپ اب بھی خفا ہورہی ہیں۔‘‘ علی نے ہر لفظ چبا چبا کر بولتے ہوئے کہا۔ 

تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولی۔ ’’مَیں سوچ رہی تھی کہ اگر آپ میں ایک آدھ فی صد بھی تبدیلی نظر آئی تو میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گی، لیکن آپ تو اپنی جگہ اٹل ہیں۔ ٹس سے مس ہونے پر تیار نہیں۔ بے شک عمل نہ کرتے، دل سے نہ سہی، کاش آپ زبان سے ہی کبھی مان لیتے کہ بیوی بھی ایک جیتا جاگتا انسان ہوتی ہے۔ اُس کے بھی جذبات، احساسات ہوتے ہیں، اُس کی بھی کوئی عزتِ نفس ہوا کرتی ہے۔ اُس کی بھی قدرو منزلت ہو سکتی ہے۔ 

اے کاش! آپ جان سکتے کہ صرف الفاظ کی کاٹ ہی سے نہیں، لہجے کی چبھن سے بھی کسی کا نازک دل لہولہان ہو سکتا ہے۔ کل شام سے پہلے مَیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔‘‘ وہ روتی بلکتی باہر نکلی اور دوسرے کمرے میں جا کر بیڈ پر ڈھیر ہوگئی۔ ساری وہ رات سو نہیں پائی، غور کرتی، یاد کرتی رہی، علی کی کوئی ایک بات، کوئی ایک رویہ، جو اُسے اُس کے ساتھ رہنے پر مجبور کر دے۔ رات ختم ہو گئی، لیکن اُس کی امید کا دامن خالی ہی رہا۔ اور روتے دھوتے ہی جانے کب نیند کی دیوی اُس پر مہربان ہو گئی۔

صُبح آنکھ کُھلی تو نو بج رہے تھے، وہ ہڑبڑا کراُٹھ بیٹھی۔ علی آٹھ بجےہی دفتر کے لیے نکل چُکا تھا۔ ’’انہوں نے مجھے اُٹھایا کیوں نہیں؟ آخری دن تھا آج، کیا ہوجاتا اگر وہ آج میرے ساتھ ناشتا کرکے چلے جاتے۔ جھگڑا ہوجائے تو منانا تو دُورکی بات، وہ تو پلٹ کر میری طرف دیکھتےتک نہیں۔‘‘ اُس کا دل پھر سے کٹنے لگا، آنکھیں بھر آئیں۔ وہ پھر سے رونے لگی۔ کچھ مَن ہلکا ہوا تو بھائی کو فون ملانے کے لیے موبائل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ علی کے واپس آنے سے قبل وہ گھر چھوڑ دینا چاہتی تھی۔ 

فون اُٹھایا تو دیکھا، ویب سائٹ پر مُراد کا نیا مضمون شائع ہوا تھا، بے اختیار اُس نے پہلے اُسے کھول لیا۔ اور پھر مُراد کی میٹھی، شہد بَھری باتیں اُس کے دل کے زخموں پر مرہم رکھنے لگیں۔ وہ سحر زدہ انداز میں پڑھتی چلی گئی۔ اُس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گررہے تھے۔ اور پھر… ایک مقام پر وہ چونک گئی اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ وہ اُٹھ کر پاگلوں کی طرح اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ علی کا لیپ ٹاپ میز ہی پر دھرا تھا۔ 

اُس نے بے تابی سے اُسے آن کیا۔ نظروں کےسامنے ہی ایک فائل فولڈر تھا، جسے کھولتے ہی اُس کا سر بُری طرح چکرانے لگا۔ فولڈر میں مُراد کی لکھی تمام تحریریں موجود تھیں۔ اُس نے تازہ ترین تحریر کھولی، جو رات ہی کو ٹائپ کی گئی تھی اور پڑھنا شروع کردی۔ وہ پڑھتی جارہی تھی اور اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جارہی تھیں، اور پھر اِن جملوں پر پہنچ کر تو وہ لیپ ٹاپ ہی پر سر رکھ کر پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگی۔ ’’بیوی بھی ایک جیتا جاگتا انسان ہوتی ہے۔ اُس کے بھی جذبات، احساسات ہوتے ہیں۔ اُس کی بھی کوئی عزتِ نفس ہوا کرتی ہے۔ اُس کی بھی قدرومنزلت ہوسکتی ہے۔ اے کاش! کوئی جان سکے کہ صرف الفاظ کی کاٹ ہی سےنہیں، لہجےکی چُبھن سے بھی کسی کا نازک دل لہولہان ہوسکتا ہے۔‘‘