تحریر: نرجس ملک
ماڈل: ماہی راجپوت
ملبوسات: فِٹ ویئر برائیڈل کلیکشن بائے عمران ملک
آرائش: Sleek by Annie
کوآرڈی نیشن: محمّد کامران
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
برطانوی ماہرینِ نفسیات نے کچھ عرصہ قبل ایک جامع تحقیق کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کم ازکم چھے جملے ایسے ہیں، جو دنیا کی ہر خاتون کو کسی نہ کسی حد تک ضرور خوش کرتے ہیں۔ اوّل، ’’تم میری زندگی میں آنے والی پہلی عورت ہو۔‘‘ دوم، ’’یہ میری خوش بختی ہے کہ مجھے تمہارا ساتھ نصیب ہے۔‘‘ سوم، جو سُکون تمہاری قربت میں ہے، وہ دنیا میں کہیں نہیں۔‘‘ چہارم، ’’تم جیسی عظیم عورت ہی دنیا کی بہترین ماں بن سکتی ہے۔‘‘ پنجم، ’’مَیں تمہیں بہت چاہتا ہوں۔‘‘ اور ششم، ’’میری خواہش ہے کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو۔‘‘ اب اللہ جانے اِس سروے یا تحقیق میں کس عُمر اور کس ذوق کی خواتین کو شامل کیا گیا، کیوں کہ ہمارے خیال میں تو احساسات و جذبات سے معمور کسی بھی عورت کو اُس کے حُسن و جمال، زیب و زینت، آرائش و زیبائش کی تعریف و توصیف سے زیادہ خوشی کوئی بات یا جملہ نہیں دے سکتا۔
ایک عورت اپنے رُوپ سروپ، جامہ زیبی کے سراہے، پسند کیے جانے پہ جس قدر نہال، باغ باغ ہوتی ہے، کم ہی کسی اور جملے پر اتنی شاداں و فرحاں ہوتی ہے۔ جب کہ تحقیق میں عورت کی اِس فطری، ازلی خواہش بلکہ سرشت کو یک سر فراموش ہی کردیا گیا ہے۔ یہ چھے جملے ایک طرف، ذرا کسی خاتون سے کہہ تو دیکھیں کہ ’’آپ قدرت کا ایک حسین شاہ کار ہیں۔‘‘ یا ’’بنائوسنگھار کوئی آپ سے سیکھے کہ جامہ زیبی تو آپ پرختم ہے۔‘‘ وہ دِنوں، مہینوں ہوائوں میں اُڑتی نہ رہے، تو کہیے گا۔
ایویں ای تو شعراء نے عورت کے ظاہری حُسن و جمال کی مدح سرائی میں دیوان کے دیوان سیاہ نہیں کردیے۔ حد تو یہ ہے کہ سر تاپا (زلفوں سے لے کر پائوں کی ایڑیوں تک) انگ انگ پر شعر و شاعری فرمائی گئی ہے۔ جاوید اختر کی ؎ ’’حُسنِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں..... آفریں آفریں، آفریں آفریں..... تُو بھی دیکھے اگر تو کہے ہم نشیں..... آفریں آفریں، آفریں آفریں‘‘ سے لے کر احمد فراز کی ؎ ’’سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں..... سو، اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کےدیکھتے ہیں۔‘‘ تک، محض عورت کے سراپے، سُندرتا و کوملتا ہی کی تو قصیدہ خوانی ہے۔
ویسے تو ایک مصرع، اب ضرب المثل بن چُکا ہے کہ ؎ نہیں محتاج زیور کا، جیسے خوبی خدا نے دی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کی عطا کردہ خوبیوں، اوصاف سے انصاف، سنوار و نکھار کا طریقہ سلیقہ بھی کوئی خال خال ہی رکھتا ہے اور جسے یہ ہنر حاصل ہوجائے۔ جو اپنی ذات و شخصیت کی کمیوں، زیادتیوں کا ادراک کرلے، پھر اس کی سج دھج، جامہ زیبی و دل آویزی بھی ضرب المثل ہی ٹھہرتی ہے کہ بلاشبہ خُود آگہی، بےخبری سےکہیں بڑی نعمت ہے۔
گرچہ یہ نعمت ہر ایک کو میسّر نہیں کہ آج بھی اَن گنت لوگ ایسے ہیں، جو اپنی ذات کی خُوبیوں، خامیوں سے سرے سے آگاہ ہی نہیں، خصوصاً زیادہ تر خواتین تو عُمر بھر اپنی ذات کی پوشیدہ صلاحیتوں کو سامنے لانے، اجاگر کرنے سے گریزاں ہی رہتی ہیں، یا پھر اُنہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ درحقیقت کِن ہزارہا گُنوں، اوصاف سے متّصف ہیں اور اِسی بے خبری میں ساری حیاتی اپنےایک محدود دائرے، حُجرے ہی میں گزار دیتی ہیں۔ اور کچھ نہیں، تو کم از کم پہننے اوڑھنے کا ڈھنگ، طریقہ تو ہر عورت کو آنا ہی چاہیے۔
اتنا تو پتا ہو کہ اُن کے قد کاٹھ، رنگ رُوپ، خال و خد کے ساتھ کیسے رنگ وانداز لگّا کھاتے، اُن پر پھبتے سجتے ہیں، اُن کی شخصیت، رُوپ سروپ کو چار چاند لگاتے ہیں۔ اور یہ علم ہوگا، تب ہی تو ظاہری شخصیت سے آرائش و زیبائش، سولہ سنگھار کی ہم آمیزی ہوگی۔ خُود آراستگی، فطری حُسن کو جِلا بخشے گی، نہ کہ بے ڈھب، بوجھل کرکے طنز بَھری نظروں کے مقابل لا کھڑا کرے گی۔
پھر، ہم بھی تو ہر موسم، موقعے اور ہر طرح کے رُوپ رنگ سے عین ہم آہنگ ایک سے ایک بزم اِسی واسطے سجا لاتے ہیں کہ خواتین کی خُود شناسی و خُود آگہی میں جس قدر بھی اضافہ ممکن ہے، کیا جائے۔ جیسا کہ ان دِنوں ہر طرح کی تقریبات کا خُوب غلغلہ ہے۔ کبھی شادی بیاہ یا دیگر اہم تقریبات کے انعقاد کے لیے موسمِ گرما کی چُھٹیوں کا انتظار کیا جاتا تھا، لیکن آج بدلتے وقت کے ساتھ جہاں اور بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے، وہیں سال کے پانچویں موسم (شادی بیاہ سیزن) کے لیے دسمبر تا اپریل کے مہینے گویا مختص سے ہوگئے ہیں۔
یوں بھی بھیگی بھیگی سردی میں گہرے اُجلے رنگوں کے دبیز، کام دار تقریباتی پہناوے زیبِ تن کرنے، ہیوی میک اَپ (کہ ڈارک کلر آئی شیڈوز، بلش آن، لپ اسٹکس کے استعمال کا موقع مل جاتا ہے) بھاری بھرکم زیورات سے آراستگی کا جو لُطف و سرور آتا ہے، وہ کسی اور موسم میں ممکن ہی نہیں۔ تو لیجیے، ذرا ہماری آج کی رنگارنگ بزم ملاحظہ فرمائیے۔ جہاں کسی حد تک ماڈرن، فیشن ایبل، ویسٹرن اسٹائل ملبوسات پسند کرنے والی خواتین کے لیے ایک نسبتاً کیژول سا سیاہ و سفید کی سدا بہار ہم آہنگی میں پہناوا موجود ہے، تو وہیں تین انتہائی نفیس و دل نشین سے خالص تقریباتی پہناوے بھی ہیں۔
جیسا کہ آف وائٹ کے ساتھ طلائی رنگ کے امتزاج میں خُوب صُورت موتی، سیکوینس، ستارہ ورک کی دل آویزی ہے، تو ٹی پنک رنگ کے بَھرے بَھرے کام دار لانگ فراک، دوپٹے کےساتھ چُوڑی دار پاجامے کی ہم رنگی کا بھی جواب نہیں۔ جب کہ بلڈ ریڈ رنگ کے ساتھ باٹل گرین کے دل کش تال میل میں ہیوی ایمبرائڈری کا حسین لُک بھی اپنی مثال آپ ہے۔ نیز، ہر پہناوے کی مناسبت سے انہتائی حسین و دل کش بھاری بھرکم زیورات کا انتخاب تو گویا سونے پہ سہاگا ہے۔
اب ایسےحسین و جمیل رنگ و انداز سے کوئی سجے سنورے گا، تو پھر واقعتاً کوئی مَن پسند، دلی مسرت و خوشی کے احساس سے سرشار کردینے والاجملہ، شعر تو کانوں میں گونجےگا ہی۔ جیسا کہ مینا نقوی کا یہ کلام کہ ؎ ’’آنکھوں میں رنگ پیار کے بَھرنے لگی ہوں میں.....آئینہ سامنے ہے، سنورنے لگی ہوں میں.....آنکھوں میں اُس کے پا کے اشارے وفائوں کے .....گہرے سمندروں میں اُترنے لگی ہوں میں.....منزل، نہ قافلہ، نہ مسافر، نہ راہبر..... یہ کیسے راستوں سے گزرنے لگی ہوں۔‘‘