تحریر: نرجس ملک
ماڈلز: سنیبل عروج، عُمر حیات
شالز: Enem (لبرٹی مارکیٹ، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
موسمِ سرما اور نرم و گرم اونی، دبیز، ریشمی، سوتی شالوں کا گویا چولی، دامن کا ساتھ ہے۔ اور اِن شالز میں لپٹی لپٹائی، سمٹی سمٹائی لڑکیاں بالیاں، خواتین بھی کچھ ایسی حسین و دل کش، کومل و سُندر معلوم ہوتی ہیں کہ بے اختیار ہی شعراء کے قلم ایک سے بڑھ کر ایک شاہ کار تخلیق کیے جاتے ہیں۔
مثلاً ؎ گرم ہاتھوں سے آنچ آتی ہے.....سردیوں کی وہ شال لگتا ہے۔ ؎ میرے پہلو میں تُو نہیں، نہ سہی.....میرے شانے پہ تیری شال تو ہے۔ ؎ کس سے تیرے آنے کی سرگوشی کو سُنتے ہی.....مَیں نے کتنے پھول چُنے اور اپنی شال میں رکھے۔ ؎ صندوق پرانی یادوں کا، تالا توڑ کے دیکھا تو.....اِک ریشم کی شال ملی ہے، نیلے رنگ کی ساری ہے۔ ؎ دھنک میں سُر تھے، تِری شال کے چُرائے ہوئے..... مَیں سُرمئی تھا، سرِشام گنگنائے ہوئے۔
؎ ہر ایک شام نئے خواب اُس پہ کاڑھیں گے..... ہمارے ہاتھ اگر تیری شال آجائے۔ ؎ جاڑے کی رُت ہے، نئی تن پر نیلی شال.....تیرے ساتھ اچھی لگی، سردی اب کے سال۔ ؎ تُو اگر سیر کو نکلے، تو اُجالا ہوجائے..... سُرمئی شال کا ڈالے ہوئے ماتھے پہ سِرا۔ ؎ غبار ابر بن گیا، کمال کردیا گیا.....ہری بَھری رُتوں کو میری شال کردیا گیا۔ ؎ اوڑھ کے پِھرتی تھی، جو نیناں ساری رات.....اُس ریشم کی شال پر یاد کے بُوٹے تھے۔ ؎ ہاتھ تمہارے شال میں بھی..... کتنے ٹھنڈے رہتے تھے۔
؎ آنکھوں میں چبھ گئیں تِری یادوں کی کرچیاں.....کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے۔ ؎ یادوں کی شال اوڑھ کے آوارہ گردیاں.....کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں۔ ؎ شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں..... بارشوں میں کبھی بھیگو گے، تو یاد آئوں گا۔ اور ؎ سانولے تن پہ غضب دھج ہے بسنتی شال کی۔ ؎ اوڑھی جو اُس نے شال تو پشمینہ جی اُٹھا۔
اور.....واقعتاً کبھی کبھار ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ کچھ چہروں مہروں، خال و خد کو پوشاکیں، پہناوے نہیں سجاتے سنوارتے بلکہ وہ رنگ و آہنگ کو ایک نیا رُوپ رنگ دے جاتے ہیں۔ کچھ مَن موہنی صُورتیں ’’پشمینہ‘‘ اوڑھ لیں، تو پشمینے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اور یہ بھی صد فی صد حقیقت ہی ہے کہ عورت، خواہ دنیا کے کسی بھی خطّے، مذہب، رنگ و نسل، سماج، عُمر کی ہو، ڈھکی چُھپی مستور و مخفی، حجاب و حیا کے ساتھ جس قدر حسین و جمیل، دل کش و دل آویز، پوترو پاکیزہ معلوم ہوتی ہے، عریانیت و بے باکی میں ویسی لگ ہی نہیں سکتی۔
اپنی روزمرّہ زندگی ہی میں دیکھ لیں۔ شرم وحیا کے سانچے میں ڈھلی خواتین قلب و نظر کو زیادہ بھلی محسوس ہوتی ہیں یا نیم عریاں۔ خصوصاً ’’عروسِ مشرق‘‘ کا تو سارا رُوپ رنگ ہی اُس کی ستر پوشی، حیا و حجاب میں پنہاں ہے کہ بھاری بھرکم لہنگے، شرارے، غرارے کے ساتھ گھونگھٹ کاڑھے، نیچی نگاہیں کیے، لاج، شرم سے کسمساتی، گٹھری سی بنی عروس ہر ایک نگاہ ہی کو بھاتی ہے، بہ نسبت دوپٹے سے بےنیاز، ڈیپ گلے، سلیولیس ڈریس کے ساتھ انتہائی بے باکی و بےشرمی کے ساتھ ہسنی ٹھٹھول کرتی دلہن کے۔
قصّہ مختصر، موسمِ سرما اپنی دیگر سوغاتوں، لوازمات کے ساتھ کچھ اور بھی بھلا یوں لگتا ہے کہ اِس میں شجر و حجر، نباتات و جمادات تو ضرور نیم برہنہ، عریاں سے ہو جاتے ہیں، درختوں کی پوشاکیں (پھول، پتّے) رنگ بدلتے بدلتے بالآخر مکمل زرد و خشک ہوکے ساتھ ہی چھوڑ جاتی ہیں، لیکن انسانی اجسام پر پوششوں کی پرتیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ اور اِن پوششوں، غلافوں میں سب سے حسین پرت ، گرم اونی شالز کی ٹھہرتی ہے۔
جو مرد و خواتین دونوں ہی کے ہر طرح کے پہناووں کے ساتھ انتہائی نفیس و شاہانہ سا تاثر دیتی ہے۔ نمونے کے طور پر ہماری آج کی بزم ہی دیکھ لیں۔
ماڈلز کے دیسی بدیسی ہر طرح کے ملبوسات کے ساتھ نرم و گرم، دبیز ریشمی شالز کیا ہی عُمدہ انتخاب معلوم ہو رہی ہیں۔
ذرا دیکھیے، فی میل ماڈل کی ملٹی شیڈڈ لانگ فراک کے ساتھ، حسین ایمبرائڈری سے آراستہ شال اور میل ماڈل کی دبیز چاکلیٹ برائون رنگ شال کس قدرعُمدہ امتزاج ہے۔
اِسی طرح سفید ٹراؤزر پر میجینٹا رنگ وولن جیکٹ اور پھول دار پرنٹ سے مزین ہلکی عنّابی رنگ شال کا انتخاب لاجواب ہے، تو فی میل ماڈل کے رائل بلیو پیپلم کے ساتھ ہلکی خاکی رنگ کی ایمبرائڈرڈ شال اور میل ماڈل کے بلیک اینڈ وائٹ پینٹ شرٹ کے ساتھ آف وائٹ شال کا تال میل بھی خُوب ہے۔
جب کہ فی میل ماڈل کی جینز کے ساتھ حسین پرنٹڈڈ مسٹرڈ رنگ شال اور میل ماڈل کے جیٹ بلیک شلوار قمیص پر لائٹ پِیچ رنگ شال کے انتخاب کے تو کیا ہی کہنے۔ ہمیں یقین ہے، دیکھنے والے نہ صرف بے اختیار داد دینے پر مجبور ہوں گے بلکہ اپنائے بغیر بھی نہ رہ سکیں گے۔ تو پھر جون ایلیا کے الفاظ میں کہنا تو بنتا ہے۔ ؎ گفتگو جب محال کی ہوگی..... بات اُس کی مثال کی ہوگی..... زندگی ہے، خیال کی اِک بات..... جو کسی بے خیال کی ہوگی..... کُفرو ایماں کہا گیا جس کو..... بات وہ خدوخال کی ہوگی.....تھی جو خُوشبو صبا کی چادر میں..... وہ تمہاری ہی شال کی ہوگی..... جَون دل کے ختن میں آیا ہے.....ہر غزل، اِک غزال کی ہوگی۔