غزہ میں سوا سال سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ، جس میں صہیونی افواج نے سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے شہری آبادی کو وحشیانہ فضائی اور زمینی حملوں کا نشانہ بنا کر عورتوں بچوں سمیت پچاس ہزار نہتے فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور اسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت رہائشی بستیوں کو ملبے کا ڈھیر بنادیا، بالآخر جنگ بندی معاہدے کے نتیجے میں بند ہوئی اور پچھلی رات غزہ کے شہریوں نے حملوں کےخوف کے بغیر گزاری۔چھ ہفتوں پر محیط جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے میں وسطی غزہ سے اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی شامل ہے۔ فی الحقیقت صہیونی ریاست کی سرپرست عالمی طاقتوں نے پندرہ ماہ تک اسے غزہ میں بدترین خوں ریزی جاری رکھنے کا کھلا موقع دیے رکھا تاکہ وہ فلسطینی مزاحمت کا جڑ بنیاد سے قلع قمع کرکے پورے علاقے پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرسکے لیکن حماس کی سخت جان مزاحمت اور غزہ کے شہریوں کی بے مثال قربانیوں نے یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا جبکہ حماس نے مختلف عرب ریاستوں سمیت دنیا کے متعدد ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم کئے جانے اوریوں تنازع فلسطین کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردیے جانے کے ابھرتے ہوئے خدشات کے آگے بند باندھ دیا۔اس لازوال اور بے مثال مزاحمت نے خطے میں پائیدار امن کے حوالے سے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیا ہے۔ اسلئے اسلامی تعاون تنظیم کے57 ملکوں سمیت دنیا کی تمام انصاف پسند طاقتوں کو اب جلد از جلد اس تنازع کے انصاف کے تقاضوں پر مبنی مستقل حل کیلئے یکسو ہو کر پیش رفت کرنا ہوگی۔اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو لگام دینا عالمی امن کیلئے ناگزیر ہے جس نے حال ہی میں عظیم تر اسرائیل کا نقشہ جاری کرکے متعدد عرب ریاستوں پر قبضے کے مکروہ عزائم کا اظہار کیا ہے۔