اس نے مجھ سے کہا: یہ کیسی دنیا خدا نے بنائی ہے۔ جاندار ایک دوسرے کی بوٹی بوٹی نوچ کر کھا جاتے ہیں۔ خدا کیوں جاندارو ں کو تکلیف میں دیکھنا پسند کرتاہے۔ ایک برفانی چیتا پہاڑ کی بلندی سے ایک سبزی خورجانور کو دیکھتا اور اس کا پیچھا کرتاہے۔ وہ اسے پہاڑوں سے نیچے گراتا ہے۔ لہولہان سبزی خور چٹانوں سے ٹکراتا ہوا، نیچے گرتا ہوا بے بس ہو جاتاہے۔ برفانی چیتا زندہ جانور کا گوشت نوچنا شروع کردیتاہے، جسے ہر دفعہ نوچنے پر بھرپور اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ عین اس وقت برفانی چیتے سے بھی بڑا درندہ نازل ہو جاتاہے، جو اسے بھگا دیتاہے۔برفانی چیتا دراصل ایک مادہ ہے، جس کے تین بچے ایک غار میں بھوکے بیٹھے ہیں۔ مادہ چیتا بھوکی واپس چلی جاتی ہے۔ یہ کیسی دنیا خدا نے تخلیق کی ہے؟
میں خاموش رہا۔ اس نے مجھ سے یہ کہا: یہ کیسی دنیا خدا نے تخلیق کی ہے؟ انسان ایک دوسرے کے درپے ہیں۔ ایک دوسرے کا مال ہتھیانا چاہتے ہیں۔ شروع دن سے قبائل ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے، مردوں اور بچوں کو قتل کرتے اور عورتوں کو اٹھا کر لے جاتے۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ بحری اور جنگی ہوائی جہاز نسبتاً کمزور ممالک پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ انہیں تباہ و برباد کرنے کے بعد ان کی زمین اور معدنیات ہتھیا لیتے ہیں۔ اسرائیل یہ سب ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے۔ تمام طاقتور ممالک اس عمل میں اس کے حامی و مددگار ہیں۔ چند ایک گونگے شیطان بنے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی دل سے مظلوموں کا ساتھ دیتاہے تو عالمی برادری اس کا بائیکاٹ کر دیتی ہے۔ اس پر پابندیاں لگا دی جاتی اور طاقتور ممالک اس کے خلاف اتحاد بنا لیتے ہیں۔ مظلوم کا یہ حال ہے اور اس سے ہمدردی کرنے والے کا یہ حال ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس دنیا میں ہمدردی حاصل کرنے کیلئے ضرورت اس بات کی نہیں کہ آپ حق پر ہوں۔ ضرورت تو یہ ہے کہ آپ لابنگ کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔یہ کیسی دنیا خدا نے تخلیق کی ہے؟ اس نے کہا:اس دنیا میں سیاستدان ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو خائن اورعالمی استعمار کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ہیں۔ طاقتور طبقات قانون نافذ کرنے والے اداروں اور منصفوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ واعظ بھی ان کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ میڈیا کی طاقت سے خائن کو ایماندار اور ایماندار کو خائن ثابت کیا جاتاہے۔ آخری تجزیے میں آپ کا حق پر ہونا اہم نہیں بلکہ طاقتور اور لابنگ کی صلاحیت رکھنا اہم ہوتا ہے۔ یہ کیسی دنیا خدا نے تخلیق کی ہے۔
میں نے کہا: اقبالؔ نے کہا تھا:
جبریل:ہمدمِ دیرینہ! کیسا ہے جہانِ رنگ و بو
ابلیس:سوز و ساز و درد و داغ و جستجوئے آرزو
یہ دنیا خدا نے آزمائش کیلئے تخلیق کی۔معرکہ حق و باطل کیلئے۔ میدانِ جنگ میں کسی مقدس ہستی کو قتل کیاجاسکتا ہے لیکن آنے والی صدیاں معرکہ ء حق و باطل میں اپنا سر پیش کرنے والے ہی کی ہوتی ہیں۔ کیا وہ لوگ، جو معرکہ ء حق و باطل میں نہیں اترتے،ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ مرنا تو سب نے ہے۔ دیکھنا یہ ہوتاہے کہ کون خدا کی محبت میں موت کے خوف پر غالب آتا ہے۔
میں نے کہا: اس دنیا کے تمام جانداروں کو سبزی خور پیدا کیاجا سکتاہے۔ سیارہ زیادہ بڑا بنا دیاجاتا اور جنگلات زیادہ اگا دیے جاتے۔پودے کے اگنے کی رفتار بڑھا دی جاتی۔ انسانی مزاج گریٹ ایپ چمپنزی کی بجائے گریٹ ایپ بونوبو جیسا بنا دیا جاتا تو کوئی آپس میں نہ لڑتا۔ نر اور مادہ کی دو صنفیں تخلیق کرنے کی بجائے ایک صنف میں تخلیق کیا جاسکتا تھا،جو خود ہی اپنے بچے پیدا کرتی۔
انسان اور درندے سبزی خور ہوتے۔ ایک دوسرے کو نہ کھاتے۔ جبلت ہوتی ہی نہ تو کون کسی کا خون بہاتا۔ شیر بکری ایک گھاٹ پہ پانی پیتے۔ انسان کو اتنی سمجھ ہی نہ ہوتی کہ ایٹم کو توڑکر جوہری ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔ انسان کو ریاضی کی کوئی سمجھ نہ ہوتی اور وہ کوئی راکٹ نہ بنا سکتا۔انسان کو اتنی سمجھ ہی نہ ہوتی کہ زمین کے نیچے قیمتی معدنیات دفن ہیں۔انسان دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہوتا۔کھانے پینے اور نسل بڑھانے تک محدود ہوتا۔ یہ مگر کیسی دنیا ہوتی؟اسی مکالمے میں جبریل یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آسمانوں پر ابلیس کی واپسی نہیں ہوسکتی۔ سیارہ ارض کی زندگی دیکھ لینے والا ابلیس جواب دیتاہے۔
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو
معرکہ خیر و شر کی یہ دنیا بڑی دلچسپ ہے۔ شر کیلئے یہ دنیا خیر والوں سے زیادہ رنگین ہے۔ یہاں اپنے شر کا مظاہرہ کرنے، غرانے، حملہ کرنے اور مار کر پھینک دینے والے کو ایک ایسی لذت ملتی ہے، فرشتے جس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ ابلیس نے یہ بھی کہا تھا:
خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفان یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو
باقی جہاں تک ایک مثالی دنیا کی تخلیق ہے تو وہ جنت کی صورت میں بنائی گئی ہے۔ اس دنیا کے رہنے والے جس کی ڈائمینشنز کا اندازہ نہیں کر سکتے۔