(گزشتہ سے پیوستہ)
ہر دو ذرائع ابلاغ، بیرون ملک وطن کی محبت سے سرشار پاکستانی اور (ایٹ لارج) نیشنلسٹ رنگ کا سنجیدہ سوشل میڈیا اپنے تئیں یہ جائز پوزیشن لے چکے ہیں کہ :نئی امریکی انتظامیہ کو پاکستان کی ان کے نزدیک مسلسل اور سخت مضطرب صورتحال سے نکلنے کیلئے بالآخر متوجہ کرانا اور ان کے دبائو کو ممکن بنانا، مداخلت کی دعوت نہیں، بائیڈن دور کی رجیم چینج کی قوت اخوت عوام کیلئے قطعی ناقابل برداشت اور ثابت شدہ مداخلت کو نئی امریکی انتظامیہ سے ازالے کا مطالبہ ہے۔ فپاکستان امریکی ڈائس پورا میں تو اس نے باقاعدہ بیانئے کی صورت اختیار کرلی ہے جس کی شنید اب پاکستانی امریکی حلقوں میں عام تاثرہےکہ عمران کو رہا کرانے اور موجودہ حکومت کو لپیٹ کر مین ڈیٹڈ حکومت کی بحالی کی لابنگ اور جدوجہد، تحریک انصاف کی بے مثال قانونی جدوجہد کو خود نظام عدل کو حکومتی ٹول بنا کر ہر حالت میں ناکام بنانے کے خلاف ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ :26 ویں ترمیم سے مکمل مطلبی عدالتی ڈھانچہ قائم کرنے کے بعد وہ ہی حق رکھتے ہیں کہ: جس سفارتی زور سے اور پاکستانی جغرافیائی حدود سے ہزار ہا کلو میٹر دور جس امریکی ذریعے سے رجیم تبدیل کرکے ان کے وطن کو مکمل سرزمین بے آئین بنا کر، ہاروں کی حکومت بنا کر اور جیتوں کو پابند سلاسل و مبتلائے وابتلا کرکے بدترین صورت پیدا کی گئی ہے۔ اب امریکی انتظامیہ تبدیل ہونے پر پاکستانی حکومتی سطح پر تبدیل رجیم کے ذرائع سے ہی کہیں زیادہ بلند سطح پر پہنچ اور حاصل کرکے پچھلی امریکی انتظامیہ کے اس انتہا کے غیر ذمے دارانہ طرز عمل اور بدترین مداخلت کے تمام اثرات و نتائج کو تازہ دم اور مختلف اپروچ کی نئی حکومت سے تبدیل کرایا جائے۔ وہ اس میں اہم اہداف حاصل کرچکے ہیں۔ وہ ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستان کی ابتری پر سخت پریشان اور محب وطن پاکستانی بائیڈن انتظامیہ کی پاکستان مخالف امریکی مداخلت کو ملکی عدالتی نظام مکمل حکومتی اثر میں آنے پھر فسطائی حربوں سے عوام کے خوف و ہر اس میں آنے کے بعد اس کے سوال کوئی دوسری راہ نہیں پا سکے۔ ایسے میں داخلی حل کا اب ایک ہی راستہ ہے حتمی اور نتیجہ خیز لیکن جتنا سکہ بند وقت اتنا ہی کم ہے وہ ہے عقلی دلائل پر نالج بیسڈ اور ملٹری ریلشنز، سوچیں! مطلوب عدالتی نظام بھی اسی سے مشروط، وگرنہ امریکی مداخلت (برائے ازالہ) خالی خولی تو نہیں ہو گی۔
پاکستانی مین اسٹریم میڈیا کی پیشہ ورانہ فریم میں صحافتی عملداری کی موجود صورتحال سے پہلے ہی صحافتی برادری، فقط آزادی صحافت کے حوالے سے ہی نہیں، اس کی معمول کی پروفیشنل پریکٹس میں حکومتی رکاوٹوں اور ناروا پڑتال ہدایات کے حوالے سے سخت بوجھل ہے اور اب تو ان کی بے چینی اور عدم اطمینان میں مبتلا ہے۔ اب یہ مزید متنازع قانون سازی سے سراپا احتجاج ہوتی نظر آ رہی ہے۔ واضح سوشل میڈیا کا ایک بڑا پروفیشنل اور ذمے دار سیکشن مین اسٹریم میڈیا پر لگی پابندیوں کو ناقابل برداشت قرار دیتے اور اس میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں سوشل میڈیا میں ایک بڑی اہم جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس کا الٹ خسارہ براہ راست حکومت کو ہی ہوا، جبکہ مین اسٹریم میڈیا کا عوام میں اعتبار (SOURCE CREDIBILITY) بھی کم تر ہوا ہے۔ ملکی میڈیا کو اس سے ہونے والے مالی خسارے کو پورا کرنے کیلئےحکومت کو مین اسٹریم میڈیا کی لائف لائن (اشتہارات) کی سخت متنازع ترسیل بھی بیڈ گورننس کی واضح عکاس ہے۔ پروگورنمنٹ بے مقصد اور حکومت کو بھی گراس روٹ لیول پر خسارہ پہنچانے والی یہ اشتہاری مہمات بحیثیت مجموعی مین اسٹریم میڈیا کے لئے بھی خسارے کا ہی سودا ہے کہ:اس سے میڈیا کی سوسائٹی میں اپنا اعتبار قائم رکھنے والی متاع عزیز (سورس کریڈیبلٹی) کا درجہ تیزی سے گرا اور گر رہا ہے۔سو حکومت کی اس مضحکہ خیز اور مہلک پالیسی سے صرف گورنمنٹ میڈیا ریلیشنز خصوصاً عامل صحافیوں کے بڑھتے عدم اعتماد کے حوالے سے ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ حساس ریاستی اور عوامی خدمات کے اداروں اور عوام الناس کے درمیان پیدا ہوئی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں شدت سے مطلوب سول، ملٹری ریلیشنز کا معاملہ سب سے زیادہ حساس ہے کہ پاکستان بنیادی طور پر اپنے قیام کے تاریخی پس منظر اور اپنے بڑے مشرقی ہمسائے کے انتہائی منفی مجموعی رویے کے حوالے سے بہرحال بنیادی طور پر (فطرتاً اور باامر مجبوری) سکیورٹی اسٹیٹ ہے، جسے کسی صورت گریژن اسٹیٹ نہیں بننا چاہیے لیکن اب یہ میڈیا جانب حکومتی رویے کے باعث دنیا میں اس طور دیکھی جارہی ہے جو وطن عزیز کو حکومتی میڈیا پالیسی کا بڑا خسارہ ہے۔ اس جاری صورتحال میں گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ’’غیر قانونی و آئینی‘‘ پریکٹس کی آڑ میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025کو نیا پریشر ٹول بنا کر میڈیا کو مزید پابند و معتوب کرنے کا حکومتی اقدام صحافیوں کی نظر میں سخت متنازع اور جلتی پر تیل کے مترادف ہو گا۔
قارئین کرام! خصوصاً موضوع متعلقہ کے اسٹیک ہولڈرز یہاں ناچیز راقم الحروف ’’آئین نو‘‘ کے ڈویلپ بیانیے کو پھر دہرا دیا ہے کہ’’قیام پاکستان کی تحریک کے چار بنیادی پوٹیشنل اور محرکات، نظریہ (دو قومی) سیاسی پلیٹ فارم (مسلم لیگ) ولولہ انگیز قیادت کے ساتھ چوتھا اثر انگیز ابلاغی معاون ہندوستانی مسلم صحافت تھی‘‘۔ اس کے فالو اپ میں 75سالہ مسلسل سیاسی عدم استحکام کے باوجود پاکستانی پیشہ ور و مزاحمتی صحافت کا تعمیر وطن کیلئے مجموعی کردار، سیاسی جماعتوں، بیڈ سول گورننس، مارشل لائی حکومتوں اور مشکوک نظام عدل و بیمار المزاج افسر شاہی کے مقابل پابندیوں، آمرانہ رکاوٹوں حتیٰ کہ صحافت مخالف فسطائیت کے ماحول میں بھی ان سب کے مقابل زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ اس پر دلائل کا انبار لگایا جا سکتا ہے، لیکن وائے بدنصیبی آج کی جبکہ فروغ و توسیع کے حوالے سے ملک میں 2000سے نجی الیکٹرانک میڈیا فالوئنگ سرگرم اور جملہ پیچیدگی سے گڈمڈ ہوا سوشل میڈیا اپنے مجموعی کردار میں متنازع ہونے کے باوجود تعمیر پاکستان کے نئے اور وقت کو مطلوب پوٹیشنل کے طور پر برپا ہوا ہے، اسے بڑے بڑے انٹرسٹ گروپس نے پری پارٹیشن کی صحافت کے مقصد وحید (قیام پاکستان) کے مقابل اپنے اپنے سیاسی گروہی، تنظیمی محدود مقاصد کیلئے ماورا ئےآئین استعمال سے مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ دلچسپ اور اذیت ناک امر یہ ہے کہ اپنے آئینی کردار و منصب کے اعتبار سے جو بڑے ذمے دار اس کو ’’اپنے مخصوص و محدود مقاصد‘‘ کیلئے استعمال کر رہے ہیں، ان کا یہ رویہ خود ان کیلئے خود شکن ثابت ہو رہا ہے، اور پھر قوم و ملک کیلئے۔ اس کا حل اداروں، سیاسی جماعتوں، حکومت، اپوزیشن اور عوام و خواص کی ’’میڈیا کے مطلوب کردار‘‘ پر قومی سطح کی کج بحثی کی بجائے، سب کو پاکستانی بیش بہا ابلاغی پوٹیشل کو اس کی سکت کی مطابقت میںتعمیر وطن اور عوام الناس کی شدت سے مطلوب ضرورتوں کے حصول فکر اور توجہ مطلوب ہے۔ آئے دن کی قانون سازی کی بجائے اس پر علمی ڈائیلاگ ایک بڑی قومی ضرورت بن گئی ہےایسے میں کمیونیکیشن سائنس ہی وہ متعلقہ علم ہے جس کا کامیاب ترین، تیزی سے ترقی کرتے ممالک میں اطلاق حیران کن حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔ گویا پاکستان میں اس کا پوٹیشنل تو وافر ہے لیکن نظام سیاست و حکومت اور عدل و انصاف اور ریاستی اداروں میں اداروں کی داخلی مداخلت نے اس ابلاغی پوٹیشل کو معدنیات، آبی ذرائع و ذخائر اور زرعی خشک خطوں کی طرح منجمد کیا ہوا ہے۔ (جاری ہے)