• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ 26ویں آئینی ترمیم کے رول بیک کا اختیار صرف پارلیمان کو ہے، کوئی اور ادارہ ترمیم کو ختم کرے گا تو اسے نہ ہم مانیں گے نہ کوئی اور‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ انتباہ ایک طویل تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ قومی سیاست پر نظر رکھنے والا ہر شخص اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی ادارے بارہا اعلیٰ عدلیہ کے غیر منصفانہ فیصلوں کا ہدف بنتے رہے ہیں ۔ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے خلاف گورنر جنرل غلام محمد کے جمہوریت کش اقدام کو جسٹس منیر کی عدالت سے نظریہ ضرورت کے تحت درست قرار دیے جانے ، فوجی سربراہوں کے ہاتھوں بار بار آئین ٹوٹنے اور مارشل لا نافذ کرنے سے لے کر نواز شریف حکومت کے خاتمے اور ان کی تاحیات نااہلی کے فیصلے تک کا سلسلہ واقعات ہماری عدلیہ کے لیے ہرگز قابل فخر نہیں ۔ اس کے بعد بھی اعلیٰ عدلیہ کے کئی سربراہوں اور ارکان کی جانب سے سیاسی حکومتوں کے لیے ناروا مشکلات پیدا کی جاتی رہی ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کا اعتراف اب برملا کیا جاتا ہے اور کوئی ان کی تردید نہیں کرتا۔ تاہم 26 ویں آئینی ترمیم پر ماہرین آئین و قانون اور اہل سیاست کی خاصی تعداد کو مختلف حوالوں سے تحفظات لاحق ہیں اور اسی بنا پر انہوں نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے۔ ترمیم پر ایک بڑا اعتراض چیف جسٹس کا تقرر سینارٹی کے اصول کے بجائے پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق کیے جانے پر کیا جاتا ہے۔ اس ترمیم تحت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175-اے میں کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔ اس وجہ سے سپریم کورٹ میں اس ترمیم کے خلاف کئی گئی اپیلوں کو سماعت کے لیے منظور کیا جانا ضروری تھا تاکہ آئین کی روشنی میں تمام پہلو زیر غور آئیں اور حقیقی صورت حال واضح ہو۔لہٰذا سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلی ہیں اورعدالتی اعلامیہ کے مطابق27 جنوری بروز پیر آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا ۔ جسٹس جمال خان مندو خیل،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹسں مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال بینچ کا حصہ ہوں گے۔اس تناظرمیں اتحادی حکومت کے اہم ترین شراکت دار بلاول بھٹو زرداری کا یہ انتباہ کہ پارلیمان کی منظور کردہ ترمیم کو ختم کرنے کا اختیار پارلیمان کے سوا کسی اور ادارے کو حاصل نہیں ، دراصل اس پارلیمانی بالادستی کی بات ہے جو جمہوریت کا لازمہ ہے ۔ تاہم یہ حقیقت اطمینان بخش ہے کہ اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس دور میں پارلیمانی بالادستی کو علی الاعلان تسلیم کیا ہے لہٰذا 26ویں آئینی ترمیم کو عدالتی فیصلے کے ذریعے منسوخ کیے جانے کا تو بظاہر کوئی خدشہ نہیں لیکن ترمیم کے حامیوں اور مخالفوں سب کے دلائل کی روشنی میں اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا ایک بھرپور جائزہ عدالتی کارروائی سے ضرور منظر عام پر آسکے گا اور آئین کے تقاضوں کے تحت ضروری سمجھا گیا تو عدالت اس قانون میں مناسب تبدیلیاں تجویز کرسکے گی جبکہ پارلیمان کیلئے بہتر رویہ یہی ہوگا کہ وہ ان پر سنجیدگی سے غور کرے اور ترمیم میں اگر واقعی خامیاں ثابت ہوں تو انہیں دور کرے کیونکہ پارلیمانی بالادستی آئین کے دائرے ہی میں ہونی چاہیے ۔ یہی وہ طریقہ ہے جو ملک کو کسی نئے بحران کا شکار ہونے سے محفوظ رکھ سکتا نیز اداروں میں ہم آہنگی اور قومی یکجہتی اور استحکام کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔

تازہ ترین