قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اپنے ایک خطاب میں بیوروکریسی کو ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت قراردیتے ہوئےسرکاری افسران کو سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنے پر زور دیا تھا۔اگر وطن عزیز کی 77سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ با ت عیاں ہوتی ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں بیوروکریٹس نے اپنی شبانہ روز محنت ، ایمانداری اور ذمہ داری کو شعار بناتے ہوئے درپیش چیلنجوں کو کامیابی سے سر کیا۔رفتہ رفتہ اس شعبے کی کارکردگی حرف تنقید بننے لگی اور موجودہ دور میں صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے بیوروکریسی میں اصلاحات لانے کیلئے نئے معیارات کے تحت اعلیٰ کارکردگی کے حامل افسران کو بونس اور ترقیاں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ اقدام یقیناً اعلیٰ انتظامی شعبے میں خامیوں کی موجودگی کوظاہر کرتا ہے،جو مملکت خداداد پاکستان کیلئے ایک المیے سے کم نہیں۔ ذمہ دار افسروں کا انتخاب ،کارکردگی دکھائو اور بونس اور ترقی پائو،کی بنیاد پرہوگا۔سرکاری ذرائع کے مطابق یہ سسٹم متعارف کرانے کا مقصد اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے افسروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے،جس کے نتیجے میں وفاقی سیکرٹریٹ کی کارکردگی بہتر ہوگی۔نئے نظام کیلئے سفارشات کی تیاری کاکام خصوصی کمیٹی کو سونپا گیا ہے،جو نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے۔بیوروکریسی میں اصلاحات لانے کیلئے سردست حکومت متذکرہ اقدام بروئے کار لارہی ہے،لیکن اسے پائیدار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔مزید بہتر ہوگا کہ درپیش صورتحال کے پس پردہ عوامل کا پتہ لگایا جائے ،جو نچلی سطح تک بدعنوانی،اقربا پروری اور غیر ذمہ دارانہ رویوں پر مشتمل ایک غیرقانونی متوازی نظام کے مترادف ہے ،اور اسےپارلیمان کی مدد سے جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔