افراتفری کا شکار چیزیں ممکن ہے کہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہ ہوں اگر انھیں وقت گزرنے کے ساتھ درست کر لیا جائے۔ لیکن جب ارادہ ہی مسائل کو بڑھانا ہو تو پھر وہ مہیب چیلنج بن سکتی ہیں۔ قانونی جواز نہ ہونے سے لے کر نالائقی اور نااہلی تک بہت سے مسائل کا شکار حکمران اسے حربے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے غیر قانونی اقتدار کو طول دے رہے ہیں۔
قومی زندگی کا کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ یا تو یہ مکمل طور پر غیر فعال ہو چکا ہے یا یہ غیر فعالیت کے خطرناک حد تک قریب ہے۔ یہ گراوٹ نہ تو راتوں رات آئی ہے، اور نہ ہی خود بخود۔ اس حماقت میں ایک طریق کار دکھائی دیتا ہے :منفی منصوبہ بندی کے ساتھ روا رکھی گئی غلط کاری کے نتیجے میں انتہائی درجے کی غیر فعالیت میں ہی غاصب قوت کا بچائو مضمر ہے۔ طاقت کی مثلث کے اصول پر قائم ایک نظام کی ہر اکائی کیلئے شفافیت اور عمدگی سے کام کرنا ضروری ہے تاکہ ملک کو آگے لے جایا جا سکے۔ لیکن اگر ملک کی ترقی کی بجائے اصل مقصد حکمران اشرافیہ کا بچائو ہو تو یہ جمود کس طرح ٹوٹ سکتا ہے۔
اس میں یہ حقیقت بھی شامل کر لیں کہ نظام کی فعالیت کا دار و مدار عدلیہ کی کارکردگی پر ہے جو ریاست کے تین ستونوں میں سب سے اہم ہے۔ جب تک عدلیہ انصاف فراہم کر رہی ہو، نظام آگے بڑھتا رہے گا۔ لیکن اگر ادارہ ماورائے آئین حدود میں قدم رکھ دے تو یہ ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہو جائے گا۔ صرف یہی نہیں، یہ اپنے ساتھ ریاست کے ڈھانچے کو بھی لے ڈوبے گا۔
ملک کو پوری شعوری کاوش سے ایسی تباہ کن صورت حال سے دوچار کیا گیا ہے۔ آئین کی کتاب میں درج سپریم کورٹ کی بجائے 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ایک متبادل نظام عدل متعارف کرا دیا گیا ہے۔ اس عمل کے ذریعے حکومت کو فائدہ پہنچایا گیا تاکہ وہ اپنی پسند کے افراد کا چنائو کر لے۔ اس میں دیگر معاملات کے علاوہ حکمرانوں کو اپنی مرضی کے جج تعینات کرنے کا موقع مل گیا۔ چناںچہ عمومی تاثر ہے کہ عدلیہ ایگزیکٹو کی اطاعت گزار بن چکی ہے۔
یہ پوری مشق آئین اور قانون کی حکمرانی کی بے توقیری پر مبنی تھی۔ اس کا واحد مقصد حکمرانوں کی اقتدار میں شمولیت اور تسلسل کو یقینی بنانا تھا جنھوں نے 8فروری 2024 کی رات عوام کے مینڈیٹ کو چرایا تھا۔ ریاست کیلئے بہت سے دوسرے اداروں کا کردار بھی اگر زیادہ نہیں تو بھی اتنا ہی تباہ کن رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اس کے سربراہ کا معاملہ ہی لے لیں۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ جس ادارے کو ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے کی واحد ذمہ داری سونپی گئی ہو، اس کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہو۔ ملک کی تاریخ کے اب تک کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ انتخابات کرانے کا سہرا الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کے سر ہے۔ اگر کوئی اس میں اُنکے الیکشن کے دیدہ دلیری سے کیے گئے دفاع کو بھی شامل کر لے تو یہ ایک خوف ناک کتاب بن سکتی ہے۔ موصول ہونے والے احکامات کو بلا چون و چرا بجا لانے پر بجائے اسکے کہ انھیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا، وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے منتظر ہیں۔
پارلیمنٹ انصاف اور شفافیت کے اصولوں کے مطابق قانون سازی نہیں کرتی، یا ایگزیکٹو کے اراکین بلا سوچے سمجھے مہر لگا دیتے ہیں کیوں کہ انھیں صرف اپنے کیرئیر کی ترقی درکار ہوتی ہے، وہ دیگر عوامل ہیں جنھوں نے ملک کی اُن بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے جو قابل ستائش انصاف کے اصولوں پر استوار تھیں۔ حتیٰ کہ قائد اعظم کے حریف بھی تسلیم کرتے تھے کہ وہ صاحب کردار اور انصاف پسند شخص ہیں۔
ایک کا کھوج لگائیں تو اس طرح کے کئی دوسرے ادارے اور ان کے قائدین ملیں گے جنھوں نے آئین سے اخذ کردہ قواعد و ضوابط سے چھیڑ چھاڑ کر کے ملک کو پستی کی طرف دھکیلنے میں کردار ادا کیا ہے۔ کتاب میں درج سیدھے راستے پر چلنے اور ملک کو آگے لے جانے کی بجائے انھوں نے اسکے ساتھ سفاکانہ انداز میں چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ اس طرح اصولوں کی کتاب کی روح کو مسخ کر کے ملک کو ناقابل فہم افراتفری کے حوالے کر دیا ہے۔
یہ ایک ایسے ملک کیلئے درد اور غم کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان جو امید اور وعدے کے ساتھ وجود میں آیا تھا۔ لیکن اسے صرف ایسے ماضی پر ماتم کنا ں نہیں چھوڑا جا سکتا جو نہ ختم ہونے والی ابتلائوں سے عبارت ہو۔ پاکستان مزید نقصانات برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسے شفا بخش مسیحائی کی ضرورت ہے جس کا آغاز سوچ کی تبدیلی سے ہونا چاہیے جس نے اسے لامتناہی برسوں کی اذیت اور تکلیف کا شکار کیے رکھا ہے۔ یہ اس وقت تک سانس نہیں لے سکتا جب تک خود سری کی گرفت سے آزاد نہ ہو۔ اس کیلئے ہمدردی اور علاج کا لطیف لمس درکار ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی نفسیات میں یہ لمس عنقا ہے۔ انھیں تو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طرز عمل سے قانونی جواز نکالنے سے ہی فرصت نہیں۔ اقتدار کی حقیقی بنیادوں کی خلاف ورزی سے اقتدار میں آنے والوں کی ناکامی مسلمہ ہے اگر بنیادی تبدیلیاں نہ لائی گئیں۔ اس کا آغاز نئے انتخابات کے انعقاد سے ہونا چاہیے جو کسی شک و شبہ سے بالاتر آزاد، منصفانہ اور شفاف ہوں۔
یہ ایک مشکل عمل ہو سکتا ہے، لیکن اس میں زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔ پاکستان کو فوری علاج کی ضرورت ہے جو نیک نیت اور دیانت دار لوگوں کو کرنا چاہیے۔ اپنے ذاتی ایجنڈوں کو فیصلہ کن عوامل کے طور پر رکھنے والے موجودہ حکمران اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے درکار صفات سے عاری د کھائی دیتے ہیں ۔
جو گزر گیا وہ ماضی ہے۔ مستقبل کو اس کی پرچھائیوں سے محفوظ رکھنا ہو گا۔ اس کیلئے نقطہ آغاز الیکشن کمیشن کی جانب سے اسکے موجودہ عہدہ دار اور ڈھانچے سے نجات کے بعد قابل اعتماد اور جمہوری اصولوں کے مطابق انتخابات کا انعقاد ہے۔ تبدیلی کیلئے قابل اعتبار عمل شروع کیے بغیر پاکستان کو اس اتھاہ گہرائی سے نکالنا ممکن نہیں ہو گا جس میں اسے اس وقت پہنچا دیا گیا ہے۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)