اسلام آباد (فاروق اقدس) وفاقی حکومت کے اہم بیورکریٹ پنجاب اور وفاق میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے سکندر سلطان راجہ کے بارے میں اب تک ان کی سرکاری اہم ذمہ داریوں کے حوالے سے یہ رائے پختہ پائی گئی ہے کہ وہ دوران ملازمت کسی قسم کا دباؤ خواہ وہ کسی بھی سطح کا ہو وہ قبول نہیں کرتے ,عمران خان نے الیکشن کمشنر کی حیثیت سے تقرری کی، اصولی موقف پر مزاحمت کرنے سے مخالف ہوگئے انکے ہم عصر رفقاء کا کہنا ہے کہ سکندر سلطان نام کی طرح بارعب شخصیت کے مالک ،زیادہ لوگوں میں گھلتے ملتے نہیں دیکھا ، وہ پنجاب میں اہم عہدوں پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی جگہ تعینات ہوتے رہے، جس سے یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ بیوروکریسی کی یہ دونوں اہم شخصیات اہم بااثر اور انتہائی پروفیشنل ہیں۔ ان کے ہم عصر رفقاء کے مطابق سکندر سلطان راجہ نے کئی بار مختلف منصوبوں اور افسران کی تقرریوں میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی رائے بھی دلیل سے تبدیل کروائی، انہیں کبھی سیاسی اثرات کے تحت فیصلے کرتے یا انہیں تبدیل کرتے نہیں دیکھا گیا۔ سکندر سلطان راجہ سیکرٹری سروسز، سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس، سیکرٹری محکمہ صحت، ڈائریکٹر جنرل ایکسائز پنجاب رہے اور ان کی تعیناتی کے دوران ان محکموں کی کارکردگی میں واضح فرق تھا کیونکہ وہ بروقت فیصلہ کرتے تھے اور ماتحت افسران سے کام لینا جانتے تھے،ان کے بقول: ’سکندر سلطان راجہ اپنے نام کی طرح بارعب شخصیت کے مالک ہیں، انہیں زیادہ لوگوں میں گھلتے ملتے نہیں دیکھا لیکن جب وہ سیکرٹری سروسز تھے تو افسران کے تقرر وتبادلوں میں مداخلت نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ جو میرٹ پر ہوتا تھا وہی نوٹیفکیشن نکلتا،کبھی کسی افسر کا ان کے دفتر سے نکلنے والا نوٹیفکیشن واپس یا منسوخ ہوتے نہیں دیکھا۔ سکندر سلطان راجہ کا چار سالہ دور گزشتہ چیف الیکشن کمشنرز کے مقابلے میں زیادہ تر تنازعات کے گرد گھومتا رہا، ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کی اس وقت کی حکومت نے ان کی تعیناتی کی حمایت کی اور پھر وہی ان کی سب سے بڑی مخالف بن گئی،تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ان کے نام پر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی اتفاق کیا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ان کو یہ ذمہ داری تفویض کی تھی،سکندر سلطان نے ایک موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں بتایا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تعیناتی مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کا کوئی حکم نہ ماننے کے نتیجے میں عمران خان نے کی تھی۔ بقول سکندر سلطان راجہ انہوں نے شاہد خاقان عباسی کے حکم کے خلاف سٹینڈ لیا اور وہ کام نہیں کیا، شاید عمران خان کو ان کا یہ عمل پسند آیا ہوگا۔ انہوں نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ ’مجھے عمران خان بطور کھلاڑی بہت زیادہ پسند ہیں، وہ ہمارے ہیرو ہیں، میں نے عمران خان کی تصویر بھی گھر میں لٹکا رکھی ہے۔ صوبہ پنجاب کے شہر بھیرہ سے تعلق رکھنے والے سکندر سلطان راجہ 18ویں چیف الیکشن کمشنر تھے،انہوں نے 27 جنوری 2020 کو یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کی زندگی کا بیشتر عرصہ سول سروسز میں گزرا اور وہ ایک سابق بیوروکریٹ ہیں۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال سے تعلیم حاصل کرنے والے سکندر سلطان نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے طبی تعلیم اور بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے نجی تعلیمی ادارے پنجاب کالج کے ساتھ مل کر اپنے گاؤں میں سکول بھی قائم کیا ،سکندر سلطان بطور چیف الیکشن کمشنر اس وقت متنازع ہوئے جب انہوں نے تقرری کے کچھ عرصے بعد ڈسکہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 75 میں ضمنی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا۔ پی ٹی آئی نے ان کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور ان کے امیدوار اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کا فیصلہ کالعدم قرار دیئے جانے کی درخواست دی تھی۔ بعد ازاں تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس دوسرا ایسا واقعہ تھا، جس کی سکندر سلطان راجہ نے مسلسل سماعتیں سننا شروع کیں۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے چند روز بعد انہوں نے کہا تھا کہ ’میرٹ پر فیصلہ ہوگا، کسی جماعت کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی، ہم نے نہیں دیکھنا کہ باہر پانچ بندے آئے ہیں یا پانچ لاکھ۔ کمیشن کسی قسم کا دباؤ لینے کو تیار نہیں ، یہ وہ وقت تھا جب پی ٹی آئی کے حامی مختلف شہروں بشمول اسلام آباد میں واقع الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر حکومت کے خاتمے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔