بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو ملک کے کل رقبے کا 44 فیصد سے زیادہ ہے، لیکن آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود یہ خطہ طویل عرصے سے بدامنی، شورش اور علیحدگی پسند تحریکوں کا شکار ہے۔ بلوچستان کی اس صورتحال میں بیرونی عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے، جن میں بھارت کی مداخلت سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ ہمیشہ کشیدہ رہی ہے اور بھارت کی جانب سے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے الزامات ان کشیدگیوں کا حصہ ہیں۔پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ پاکستان کے اس اہم علاقے کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔ 2016ءمیں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس دعوے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ یادیو نے اعتراف کیا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کا افسر ہے اور بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں ملوث رہا ہے۔ اس اعتراف نے بھارت کے انکار کے باوجود بین الاقوامی سطح پر کئی سوالات اٹھائے۔ یادیو کا بیان بلوچستان میں بھارت کی مبینہ مداخلت کی واضح مثال ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں خلل ڈال رہا ہے۔بلوچستان میں شورش کا آغاز آزادی کے فوراً بعد ہوا، جب کچھ بلوچ سرداروں نے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا۔ وقت کے ساتھ یہ تحریکیں مختلف ادوار میں شدت اختیار کرتی گئیں، اور ان میں بیرونی مداخلت کا عنصر بھی شامل ہوتا گیا۔ 1970 کی دہائی میں بھی بھارت پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے بلوچ باغیوں کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کی۔ اس وقت بھارت نے عراق کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ایران اور پاکستان کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔ موجودہ دور میں، بھارتی حکومت کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کے کئی شواہد سامنے آ چکے ہیں، جن میں مالی مدد اور تربیت کی فراہمی شامل ہیں۔ بلوچستان سی پیک منصوبے کا اہم حصہ ہے، اور گوادر بندرگاہ اس منصوبے کا مرکز ہے۔ بھارت اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دے رہا ہے تاکہ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی شراکت داری متاثر ہو۔ 2016ءمیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے یوم آزادی کے خطاب میں بلوچستان کا ذکر کیا جو کہ پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت تھی۔ یہ بیان عالمی سطح پر بھارت کے عزائم کو بے نقاب کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں، جیسے بلوچ لبریشن آرمی، بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے مدد حاصل کر رہی ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق، بلوچ رہنماؤں کو بھارت میں پناہ دی گئی اور انہیں سفارتی اور طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔ ان سرگرمیوں کا مقصد پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنا اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت بین الاقوامی سطح پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کے لیے مختلف پلیٹ فارمز استعمال کر رہا ہے۔پاکستان نے بھارت کی ان سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کے ثبوت پیش کیے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا ہے تاکہ عوام کے مسائل حل کیے جا سکیں اور انہیں علیحدگی پسند تحریکوں سے دور رکھا جا سکے۔ سی پیک منصوبے کے تحت بلوچستان میں انفراسٹرکچر کی بہتری، تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترقیاتی کام کیے جا رہے ہیں، لیکن ان منصوبوں کو بھارتی مداخلت کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بھارت کی بلوچستان میں مداخلت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔ اس سے پاک بھارت تعلقات مزید کشیدہ ہو رہے ہیں اور خطے میں امن و استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ عالمی برادری کو بھارت کی ان سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور پاکستان کو اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔ پاکستان کو بھی اپنی داخلی پالیسیاں مضبوط بنانی ہوں گی اور بلوچستان کے عوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا تاکہ وہ علیحدگی پسند تحریکوں سے دور رہیں۔بھارت کی بلوچستان میں مداخلت ایک سنگین مسئلہ ہے جو نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان داخلی طور پر مستحکم ہو اور عالمی برادری بھارت کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کرے۔ بلوچستان کے عوام کے مسائل حل کیے بغیر اس شورش کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔پاکستان نے اپنی داخلی سلامتی کو مضبوط بنانے کیلئے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے، عوام کی فلاح و بہبود کیلئے پالیسیاں اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کی مداخلت کیخلاف آواز اٹھانا شامل ہیں۔ تاہم بھارت کی مسلسل مداخلت اور عالمی برادری کی خاموشی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ ضروری ہے کہ عالمی برادری بھارت کی مداخلت کو سنجیدگی سے لے اور خطے میں استحکام کیلئے پاکستان کیساتھ مل کر کام کرے۔