ملک کے مرکزی بینک کی جانب سے گزشتہ روز شرح سود میں مزید ایک فی صد کمی کے بعد اس کا 12 فیصد پر آجانا، ہر قسم کی معاشی اور کاروباری سرگرمیوںکیلئے یقینا نہایت خوش آئند ہے۔ مروجہ اقتصادی نظام میں سود کی شرح کاروباری سرگرمیوں میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ شرح جتنی بلند ہو ، سرمایہ کاری میں اتنی ہی کمی واقع ہوجاتی ہے کیوں کہ بلند شرح سود پر قرض لے کر کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنا گھاٹے کا سودا ہوتا ہے جبکہ اپنی دولت بینک میں رکھ کر بھاری اور یقینی منافع کمایا جاسکتا ہے ۔ حکومت شرح سود میں اضافہ اس وقت کرتی ہے جب اس کے اخراجات آمدنی سے بہت زیادہ ہوگئے ہوں ۔ خسارہ پورا کرنے کیلئے وہ زیادہ نوٹ بھی چھاپ سکتی ہے لیکن اس کا نتیجہ افراط زر اور یوں مہنگائی کے بے قابو ہوجانے کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس بنا پر حکومت مقامی ذرائع سے قرض لے کر اخراجات پورے کرتی اور اس کیلئے نجی شعبے کو زیادہ شرح سود کی پیشکش کرتی ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں توازن ہو تو شرح سود میں کمی ممکن ہوتی ہے ۔ یہ شرح جتنی کم ہوتی جائے ، تمام معاشی سرگرمیاں اسی کے مطابق بڑھتی جاتی ہیں۔ جنوری2018ء میں پاکستان میں اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ صرف6 فی صد تھا ، زرمبادلہ کے ذخائر ملکی ضرورت کے مطابق تھے ، روپے کی قدر بہتر تھی لہٰذا معیشت تیزی سے ترقی کررہی تھی۔ تاہم اسی سال جولائی میں عام انتخابات کے بعد حکومتی اخراجات میںبڑھتے ہوئے خسارے کی وجہ سے سود کی شرح ایک سال سے بھی پہلے مئی2019ء میں 12.25 کی سطح تک جاپہنچی اور پھر معاشی بدحالی کے سبب اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ جون2024ء میں پالیسی ریٹ 22 فی صد کی ہوش رُبا سطح تک جا پہنچا۔لیکن موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں اور ٹھوس اقدامات کے نتیجے میں معاشی بحالی کا سفر شروع ہوا ۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہوگیا اور ترسیلات زر، برآمدات نیز مہنگائی کی شرح سمیت بیشتر معاشی اشاریوں میں بہتری شروع ہوگئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ جون سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں مسلسل چھٹی بار کمی کرتے ہوئے پیر کے روز 13 فی صد سے 12 فی صد پر لے آنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے زری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے معاشی اشاریے مثبت ہیں‘مہنگائی کی شرح اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خاطر خواہ کم ہوئے ہیں‘کرنٹ اکاؤنٹ مالی سال کی پہلی ششماہی میں سرپلس رہا جس کے سبب زرمبادلہ ذخائر بڑھے، جون تک مہنگائی کی شرح 5 سے7 فیصد کی سطح پر رہے گی۔تاہم قومی معیشت کے ان مثبت پہلوؤں کے باوجود ابھی بہت کچھ ٹھیک کرنا باقی ہے اور ناگہانی مشکلات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ سرکاری اخراجات میں کمی کے اقدامات ناکافی ہیں جبکہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے جیسے فیصلے اس عمل پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ سابقہ دور میں وزیر اعظم کی بنائی ہوئی کفایت شعاری کمیٹی کی بیشتر سفارشات تشنہ تکمیل ہیں۔ ہمارے قومی وسائل کا ایک بڑا حصہ حکومتی مشینری میں سرایت کردہ کرپشن کے روگ کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، اس ضمن میں بھی کچھ زیادہ نتیجہ خیز پیش رفت نظر نہیں آتی۔ٹیکس اہداف کے حصول کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے۔ بجلی کے نرخوں میں کمی کے وعدے پورے کیے جانے کی بھی قوم منتظر ہے۔ اس سمت میں مثبت پیش رفت مجموعی معاشی ترقی کی رفتار میں حیرت انگیز اضافہ کرسکتی ہے۔ قومی معیشت کیلئے آنے والے دنوں میں جو چیلنج سامنے آسکتے ہیں، ان میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات کے علاوہ دیگر بہت سے ملکوں سمیت پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بندش کا اعلان بھی شامل ہے۔ معاشی بحالی کا سفر جاری رکھنے کیلئے ان تمام حوالوں سے قابل عمل حکمت عملی کا وضع کیا جانا ضروری ہے۔