وطن عزیز میں ٹیکس گوشواروںکے حوالے سے آنے والےاعداد و شمار ماضی بعید سے تبصروں کا موضوع بنتے رہےہیں اورعام لوگ بڑی حد تک اس باب میں توجہ دلانے کی کوشش کر کے تھک بھی چکےہیں۔ اب چونکہ آئی ایم ایف ، عالمی بینک، ایشیائی بینک اور دوسرے اداروں کی اعانت کے حصول کے حوالے سےان کے جائزے اور تبصرے سامنے آرہے ہیں اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ صرف اعداد و شمار جمع کرنے، مطلوب ہدف سےٹیکس کی رقم زیادہ یا کم جمع ہونے کی خبریں جاری کرنے اور ٹیکس جمع کرانے والے ادارے کی کارکردگی کے ذکر سے آگے بڑھ کر بہت کچھ ہوتا نظر آئے۔ ڈیجیٹل دورمیں لوگوں کی آمدن و اخراجات ، اندرونی و بیرونی دوروں کی تفصیل، گھریلو اخراجات، تعلیمی اخراجات، اندرون و بیرون ملک سفر، ملک کے اندر اور باہر موجود جائیدادوں کے بارےمیں معلومات کا حصول ایسا نہیں رہا کہ اسے آسانی سے چھپایا جا سکے۔ اس لیے چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال جب پارلیمانی کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی میںیہ انکشاف کرتے ہیں کہ دنیا کی بڑی آبادیوں والے ممالک میں شامل ریاست پاکستان کے صرف 12افراد نے اپنے گوشواروں میں 10؍ارب روپے یا اس سے زیادہ مالیت کے اثاثے ظاہر کیے ہیں تو ان کے بیان سےواضح ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے لائف اسٹائل اور اثاثوں کی تفصیل کا فرق عالمی مالیاتی اداروں کیلئے حیران کن ہے اور وہ جی ڈی پی کی موجودہ شرح کو نہیں مانتے ۔ٹیکنالوجی کی ترقی حالات کو اس مقام پر لےآئی ہے کہ ہمارےپاس اپنے نظام کی خامیاں درست کرنےکے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ ضروری ہو گیا ہے کہ قومی خزانے کی چوری کیلئے قائم کرپشن اور بدعنوانی کے متوازی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اشرافیہ سمیت سب سے ٹیکس وصولی کا مکینزم مؤثر نظر آئے، ٹیکس نیٹ وسیع کر کے تنخواہ دار طبقے کے کاندھوں کا غیر معمولی بوجھ کم کیا جائے اور غریبوں کو بھی جینے کا حق دیا جائے۔