• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی ایک ہفتہ قبل دن ڈھلے فون کی گھنٹی بجی، تو مَیں نے نیند کے خمار میں ریسیور اُٹھایا۔ دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز آئی کہ مَیں عظمیٰ بات کر رہی ہوں، مَیں نے حال ہی میں اپنی داستان لکھی ہے، کیا آپ اُسے پڑھنا پسند کریں گے۔ مَیں اِس تیکھے سوال پر ذرا ٹھٹکا اور پوچھا آپ نے یہ سوال کیوں کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا اِس لیے کیا ہے کہ عموماً اہلِ قلم دوسروں کی داستان پڑھنے کے بجائے اپنی داستان سنانا یا پڑھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مَیں نے محترمہ سے کہا کہ میرا معاملہ اِس سے یکسر مختلف ہے۔ میری متعدد کتابوں کے ناشر جناب عبدالستارعاصم تسلسل کے ساتھ مجھ سے تقاضا کرتے رہے کہ اپنی سرگزشت لکھوں۔ مَیں خاموش رہتا اور جب ایک روز اُن کا اصرار ’’آئینی حدود‘‘ سے تجاوز کر گیا، تو مَیں نے کہا جب دامن ہی خالی ہو، تو پھر کس چیز کی نمائش کی جائے۔ مجھے خوش گمانی ہے کہ وہ میرے قلبِ مطمئنہ کی تہ تک پہنچ گئے ہیں۔اُسی شام مجھے پروفیسر عظمیٰ مسعود کی تصنیف ’’بس یہی داستاں ہماری ہے‘‘ مل گئی۔ کتاب کا نام کسی قدر دِلچسپ لگا اور مَیں نے دِل ہی دل میں کہا اِسے آرام سے پڑھوں گا۔ یہاں مَیں آپ پر اپنی عجیب کیفیت کا احوال مسلط کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ گزشتہ تین چار ماہ سے میری نیند اچاٹ ہے اور تمام رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے۔ عشائیہ تناول کرنے کے بعد مَیں نے سوچا کہ چند منٹ کے لیے کتاب کا ذائقہ چکھ لیا جائے، چنانچہ اُس کے ورق الٹنے لگا۔ پیش لفظ ہی نے دامنِ دل تھام لیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے انتساب پر نگاہ پڑی ’’امّاں جی کے نام جنہیں مَیں نے ہمیشہ بیوگی کے سفید لباس میں دیکھا‘‘۔ اِسی ایک جملے نے داستان کے بنیادی خدوخال اُجاگر کر دیے تھے۔ عظمیٰ صاحبہ نے اپنے بچپن کا ایسا علامتی واقعہ درج کیا ہے جو ایک دکھ بھرے عہد کی عکاسی کرتا ہے۔ لکھتی ہیں ’’مَیں صحن میں بیٹھی شاید کھیل رہی تھی۔ نوکرانی تنور سے روٹیاں لگوا کر لائی اور اُنہیں میرے پاس چھوڑ کر دسترخوان لینے اندر چلی گئی۔ جوں ہی وہ اَندر گئی، تو بہت سے بندر جو صحن کی منڈیر پر گھات لگائے بیٹھے تھے، چھلانگیں لگا ایک ایک کر کے ساری روٹیاں اُٹھا لے گئے۔ کچھ تو دوڑ کر واپس منڈیر پر جا بیٹھے اور کچھ میرے اردگرد گھیرا ڈال کر مجھ پر کھوںکھوں کرنے لگے۔ مَیں نے ڈر کر آنکھیں بند کر لیں اور چیخنے لگی۔ میری والدہ میری چیخیں سُن کر باہر آئیں اور جلدی سے جلتی ہوئی لکڑی سے بندروں کو ڈرایا، تو وہ ڈر کر بھاگے۔ جاتےجاتے ساری روٹیاں لیتے گئے، لیکن میری جان چھوڑ گئے۔‘‘آگے چل کر مصنّفہ نے جموں سے ہجرت کا بڑا دَردناک منظر کھینچا ہے کہ حکومت نے جموں کے مسلمانوں کے انخلا کے لیے بسیں تیار کر رکھی تھیں۔ اُن بسوں میں سوار عورتوں اور بچوں کو شاید واہگہ بارڈر پر اندھیرے میں بےیارومددگار بسوں سے اتار دِیا گیا جبکہ مردوں والی بس روک لی گئی۔ میرے خالو جی کے بیان کے مطابق کوئی شخص اپنی گردن بس سے باہر نکالتا، تو وہ تلوار سے کاٹ دی جاتی۔ میرے ابّا کا زخم کاری تھا اور وُہ جانبر نہ ہو سکے۔ مردوں کی لاشیں گرتی رہیں اور ہم لاہور میں بیٹھے بچے یتیم ہوتے رہے۔محترمہ عظمیٰ نے ایک پیراگراف میں کسی تصنع اور مبالغے کے بغیر ہجرت کرنے والوں پر گزرنے والے آلام و مصائب بڑے رقت آمیز پیرائے میں بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ’’میری یتیمی، محرومی، بےبسی، بےکسی، دکھ، افلاس، محنت، ہار جیت، آدھی بھوک، کمزور خوراک، پرانے کپڑے، گرم اُبلتا ہوا گھر، جدوجہد، خواہشوں کا پورا نہ ہونا، مہاجر ہونے کو گالی سمجھنا، آہستہ آہستہ اپنی حیثیت کو جاننا اور اُسی کی حد میں رہنا سمجھ میں آنے لگا۔‘‘ اُنہوں نے پاکستان پہنچ کر اَپنی خالہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اُن کا رہن سہن نہایت وضع دارانہ تھا۔ مَیں نے اُنہیں کبھی آمدن کی کمی کا ذکر کرتے اور اَللہ سے گلہ شکوہ کرتے ہوئے نہیں سنا۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ ہر حال میں خوش ہیں۔ ہاتھ کی غریب لیکن دل کی تونگر تھیں۔ پروفیسرصاحبہ لکھتی ہیں کہ مَیں نے خالہ جی سے اَنجانے میں یہ بات بھی سیکھی کہ خاوند کی خدمت میں عظمت ہے۔کتاب اِس قدر دِلچسپ اور خیال افروز تھی کہ مَیں اُسے پڑھتا ہی چلا گیا اور مصنّفہ کی صاف گوئی اور سلیقہ شعاری میں کھویا رہا۔ اِس کی سب سے خوبصورت اور دِلآویز بات یہ تھی کہ پوری داستان یاوہ گوئی، بہتان تراشی اور ہر طرح کی غیبت گوئی سے مبرا تھی۔ محترمہ نے زندگی کا سفر بڑی متانت، شعوری وقار اَور پورے اعتماد سے طے کیا اور اُس کی روداد بڑے شگفتہ انداز میں لکھ ڈالی جو رُوح کو ایک عجب تازگی عطا کرتی ہے۔ اُنہوں نے کالج میں داخلہ لینے، یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے، تعلیم و تدریس کا پیشہ اپنانے، گھر کی ذمےداریاں نبھانے اور اَدب میں ایک مقام بنانے کے مناظر کچھ ایسی خوبی سے بیان کیے ہیں کہ مَیں بےاختیار عش عش کر اُٹھا۔ اُن کی تحریر میں ایک عجب سحر اور معصوم شرارتوں کا بانکپن تھا۔ایک ایسی ہی رات مجھ پر 1967ء میں بھی گزری تھی۔ مَیں اردواَدب کے عظیم افسانہ نگار اَور دَانش ور جناب قدرت اللہ شہاب کا اِنٹرویو لینے شام ڈھلے اُن کی اقامت گاہ پہنچا جو اُس وقت سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی میں واقع تھی۔ ہم دونوں عشائیہ تناول کرکے آمنے سامنے بیٹھ گئے اور سوال و جواب کا نہایت پُرلطف سلسلہ شروع ہو گیا۔ شہاب صاحب بات سے بات نکالتے اور حیران کن واقعات کی قوسِ قزح بناتے رہتے۔ ماحول کی شگفتگی میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ پھر صبح کی اذانیں نغمہ ریز ہوئیں، تو شہاب صاحب چونک پڑے کہ آج صبح فیلڈمارشل ایوب خان سے اُن کی ملاقات طے تھی، چنانچہ مَیں نے اُن سے رخصت چاہی۔ تمام راستے مجھے شہاب صاحب کے چلبلے جملے یاد آتے رہے۔ آج کی رات بھی ’’بس یہی داستان ہماری ہے‘‘ پڑھتے پڑھتے صبح کی اذانیں ہو گئی تھیںاور مَیں اُس وقت سے اپنی خوش یقینی سے سرشار ہوں کہ شہاب نامے کی طرح یہ کتاب بھی ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی، کیونکہ وہ ایک پُرعزم اور دِیدہ وَر خاتون کی زندگیوں کو تبدیل کرنے والی ایک حیرت انگیز سرگزشت ہے۔

تازہ ترین