ڈاکٹر یونس بٹ کی شخصیت شناسی پر رشک آتا ہے ۔اوپر سے ان کی فقرہ سازی کا کمال ۔بسا اوقات ایک فقرے میں پوری شخصیت کا تعارف سمو دیتے ہیں۔ جب سے ان کو پڑھا ہے اس امید سے ہیں کہ ہم بھی ان کی طرح لکھ سکیں لیکن آج تک ان جیسا ایک فقرہ بھی نہیں لکھ سکا۔
کچھ عرصہ سے انہوں نے اپنے آپ کو ڈرامہ نویسی تک محدود کر لیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک کتاب بھی لکھ ڈالی اور اپنی تین درجن کتابوں میں ایک اور کا اضافہ کر ڈالا۔ اس کتاب کا نام ”شناخت پریڈ ۲“ ہے جس میں انہوں نے مختلف سیاستدانوں اور کھلاڑیوں کے خاکے لکھے ہیں ۔ اس میں انہوں نے بعض عالمی شخصیات کے خاکوں کا بھی اضافہ کیا ہے ۔اس لئے بجائے اس کے کہ میں کالم کو سنجیدہ بنائوں ان کی کتاب ہی سے اقتباسات ملاحظہ کرتے ہیں۔
مثلاً روسی صدر پیوٹن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”اسے ہیلتھ کا اتنا خیال ہے کہ پتہ چلا یوکرائن میں فوجی بیمار ہورہے ہیں تو پیوٹن نے وہاں ہیلتھ انسپکٹر بھیجے تاکہ بیماری کی وجہ کا پتہ چلا سکیں۔انہوں نے تفتیش کی۔ روسی جنرلز سے پوچھا آپ پینے والا پانی کیسے صاف کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے اسے فلٹر کرتے ہیں ۔ پھر اسے ابالتے ہیں ۔پوچھا پھر اسے پیتے ہیں؟ بولے نہیں ہم احتیاطاً ووڈکا پیتے ہیں۔“
فیصل واوڈا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’دو قسم کے لوگ کچھ نہیں کہتے۔ ایک وہ جو چپ رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو بہت بولتے ہیں۔ فیصل واوڈا بھی گھنٹوں کچھ کہے بغیر بول سکتے ہیں“ مراد علی شاہ کے بارے میں آغاز اس فقرے سے کرتے ہیں کہ ”مراد علی شاہ پی پی پی کے ایک پاپولر لیڈر ہیں۔ پی پی پی میں پاپولر وہ ہوتا ہے جسے بلاول نام سے جانتے ہوں اور پکا لیڈر وہ ہوتا ہے جسے زرداری کام سے جانتے ہوں“۔
اداکارہ میرا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”مخالف کہتے ہیں کہ میرا سپراسٹار نہیں رہی ۔ ایسا نہیں ہے ۔ میرا سپر اسٹار ہے لیکن میڈیا انڈسٹری نہیں رہی“۔ پرویز خٹک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”وزیر دفاع تھے تو دوسرے ممالک سب ڈرتے تھے ۔کیونکہ ان کو دیکھ کر ان کو ڈر لگتا تھا کہ جس ملک کا یہ وزیر دفاع ہے وہ دو بدو لڑائی نہیں لڑے گا ایٹمی جنگ ہی کرے گا۔‘‘
نواز شریف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف سیاست کے میاں ہیں اور اس کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو میاں بیوی کے ساتھ کرتے ہیں۔ دوسرے سیاستدان جیتنے کے لئے بولتے ہیں میاں نوازشریف جیتنے کے لئے چپ رہتے ہیں۔ نواز شریف دوسروں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوتے خود اپنے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ بلاول نے کہا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے نواز شریف نے کہا کہ انتقام نہ لینا بہترین جمہوریت ہے۔
مریم اورنگزیب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مریم نواز سمجھتی ہیں اس میں خوبیاں ہیں ” رانا ثنا اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”رانا ثنا اللہ دور سے حوالدار اور قریب سے حوالاتی لگتے ہیں ۔ قریب بیٹھ جائو تو کچھ بھی نہیں لگتا ، بس ڈر لگتا ہے‘‘۔
آصف علی زرداری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’خود کو پیپلز پارٹی نہیں سمجھتے ، پیپلز پارٹی کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں۔حکومت آسان اور حکمرانی مشکل ہوتی ہے اور وہ حکمرانی کرتے ہیں حکومت نہیں۔وہ دونوں ہاتھ جیب میں ڈال کر بھی آپ پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔بھٹو ان کی پسندیدہ شخصیت ہے مگر کہتے یوں ہیںجیسے وہ بھٹو کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ وہ مفاہمت کے بادشاہ ہیں۔ اگر جنگ عظیم دوئم میں جرمنی کے چانسلر ہوتے تو جنگ کرنے کی بجائے اتحادیوں سے دوستی کر لیتے ۔پھر اتحادیوں کا وہ حال ہوتا جو ہٹلر کا ہوا ۔ جنرل ضیا کے زمانے میں بھٹو کی جگہ آصف زرداری ہوتے تو پھانسی چڑھنے کی بجائے ضیا دور میں وزیراعظم ہوتے اور تین ماہ میں ضیا ان کے ہاتھوں مشرف ہو چکے ہوتے“۔
علی امین گنڈاپور کے بارے میں لکھتے ہیں کہ علی امین پی ٹی آئی کی وہ بندوق ہے جو چلتی ہے تو نشانہ لگے یا نہ لگے دھچکا ضرور لگتا ہے ۔ لوگ شہد کی مکھیوں سے شہد بناتے ہیں، علی گنڈاپور میں یہ خوبی ہے کہ وہ کسی بھی چیز سے شہد بنا سکتے ہیں۔ خواجہ آصف کا تعارف یوں کرتے ہیں کہ’’ دیکھنے میں تو یونیورسٹی کے پروفیسر لگتے ہیں پر بولتے ہی سیاستدان بن جاتے ہیں ۔ بولنے کا انداز ایسا کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کب بولتے بولتے بائولنگ پہ آگئے۔‘‘عثمان بزدار کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”عثمان بزدار جب پنجاب کا وزیراعلیٰ لگا تو یہ بتانے کے لئے کہ کیا لگا ہوں،کہتا کہ میں پنجاب کا شہباز شریف لگا ہوں۔عمران خان نے کئی وزیر مشیر رکھے جو اس کی تعریفیں کرتے۔ شاہ محمود قریشی نے البتہ اپنی تعریفیں کرنے کیلئے خود کو رکھا ہوا ہے ۔آپ عثمان بزدار کا لیول چیک کریں کہ جس نے اپنی تعریف کرنے کے لئے عمران خان کو رکھا ہوا تھا۔عثمان بزدار نے کیا کیا ، یہ بھی عمران خان بتاتا تھاکیونکہ صرف انہیں پتہ تھا کہ عثمان بزدار کرتا کیا ہے“ ۔
یہ تو چند شخصیات کے خاکوں کے اقتباسات تھے ۔ کتاب میں اور بھی درجنوں شخصیات کے خاکے ہیں اور ہر ایک پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔