• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

قدرت کا اپنا ایک نظام اور طریقۂ کارہے، جو لوگ اس کے طے شدہ اصول وضوابط سے ہٹ کر زندگی بسر کرتے ہیں، اُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ایک وقت ضرور آتا ہے کہ جب قدرت اپنے طے شدہ قوانین توڑنے پرسزا دیتی ہے اور اُس وقت انسان کا تکبّر، عیّاریاں، چالاکیاں قطعاً کام نہیں آتیں۔ بے شک، جو لوگ اپنی ذاتی و معاشرتی زندگی میں اپنے والدین کے ساتھ شفیق و مہربان نہیں، اُن کے ساتھ غیظ و غضب سے پیش آتے ہيں، وہ نہ صرف آخرت میں عذاب کے مستحق قرار پائیں گے، بلکہ دنیا کی لذّت اور خوشی سے بھی بہرہ مند نہیں ہوں گے۔

والدکی نافرمانی ہی سے متعلق ایک سچّا واقعہ آپ کی نذر کررہا ہوں۔ چند سال قبل کی بات ہے کہ مَیں اپنے ایک دوست کے کلینک پر اخبار کی ورق گردانی کررہا تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کلینک میں داخل ہوا۔ اس کی بیوی بیمار تھی، کلینک میں خاصا رش تھا، اس کی باری آنے میں تھوڑی دیر تھی، لہٰذا وہ اپنی بیوی کو لیڈیز کمپارٹمنٹ میں بٹھا کر میری سامنے والی نشست پر آکر بیٹھ گیا۔ 

میں بھی کافی دیر سے بیٹھا بور ہورہا تھا، اس نے میری طرف شناسا نگاہوں سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا کہ ’’کیا آپ یہیں کہیں قریب ہی رہتے ہیں۔‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلایا، تو بولا کہ مَیں بھی قریب ہی رہتا ہوں، لیکن آج کل سعودی عرب میں بوجہ ملازمت مقیم ہوں، چھٹیوں پر آیا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ ’’آج کل کے نوجوان اپنے ملک میں کام نہیں کرتے، جب کہ باہر جاکر مزدوری بھی کر لیتے ہیں۔‘‘ 

میری بات پر اس شخص نے کہا کہ ’’جی آپ بالکل درست فرمارہے ہیں، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا، ملک سے باہر جانے سے قبل میں ایک لاابالی نوجوان تھا، اُس وقت تک میری شادی نہیں ہوئی تھی، اور بے روزگار بھی تھا، بس والد صاحب کی کمائی پر زندگی گزار رہا تھا۔ ایک روز حسبِ معمول گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ والد صاحب نے بلایا، میں باہر آیا تو انھوں نے کدال اور پھاوڑا تھمایا اور گھر کے باہر لے جاکر گلی میں ایک جگہ کی نشان دہی کی کہ ’’اس جگہ ایک گڑھا کھود دو، واٹر سپلائی کی پائپ لائن سے کنیکشن لینا ہے۔‘‘ 

اُس وقت وہاں محلّے کے کچھ لوگ اور میرے چند دوست بھی موجود تھے۔ مَیں نے پھاوڑے سے چند وار لگائے، لیکن پھر مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ میرے ہم سائے اور دوست کیا کہیں گے۔ مَیں نے جھلّاتے ہوئے والد صاحب کی طرف دیکھا اور بڑی بے رخی سے کہا کہ ’’مجھ سے یہ نہیں ہوگا، کسی مزدور کو بلوا کر گڑھا کُھدوالیں۔‘‘انھیں مجھ سے اس بات کی توقع نہیں تھی، میرے یک سر انکارپر خاموش ہوکر رہ گئے۔ مزدور کو کیا بلوانا تھا، انھوں نے خود ہی جیسے تیسے گڑھا کھودا اور واٹر سپلائی کی لائن لگوالی۔

کچھ ہی عرصے بعد میری شادی میری کزن سے ہوگئی اور چند ماہ بعد آزاد ویزے پر دبئی چلا گیا۔ جن دوستوں نے مجھے کام کا وعدہ کر کے بلایا تھا، انہوں نے دس پندرہ دن اپنے پاس رکھ کر منہ پھیر لیا اور نکال باہر کیا۔ مرتا، کیا نہ کرتا، کوئی تجربہ تھا نہیں، روٹی تو کھانی تھی۔ کسی نے گٹر صاف کرنے کا کام دلوادیا، تو اُسے غنیمت سمجھا اور گٹر صاف کرنے شروع کر دیئے۔ 

ایک سال سے زیادہ عرصہ گٹر صاف کر کے گزارہ کیا، پھر مجھے دوسرا کام مل گیا۔ لیکن وہ بھی واجبی سا تھا، اُدھر میری بیوی نے تقاضا شروع کردیا کہ یا تو مجھے اپنے پاس بلوالو یا طلاق دے دو۔ اُس وقت میرے حالات ایسے تھے کہ نہ تو واپس ملک جاسکتا تھا، نہ اسے اپنے پاس بلا سکتا تھا، ناچار چھے ماہ بعد طلاق دینی پڑی۔

پھر کچھ عرصے بعد دوسری شادی کرلی۔ اور آج یہ بات کہنے میں مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ مجھ پر دیارِ غیر میں جو کچھ بھی بِیتا وہ والد سے نافرمانی کی سزا تھی، مَیں نے پاکستان آنے کے بعد سب سے پہلے والد کے قدموں میں گر کر صدقِ دل سے معافی مانگی، تو اب میرے حالات ٹھیک ہیں، چند دنوں بعد اپنی بیوی کو ساتھ لے کر واپس جا رہا ہوں۔‘‘

یقیناً یہ سبق ہے، اُن سب لوگوں کے لیے، جو والدین کی فرمانی کرتے ہیں، اُن کا کہا نہیں مانتے اور ان کے ساتھ خوش خلقی سے پیش نہیں آتے کہ پھر اِسی طرح اُن کے گھر تباہ و برباد ہوجاتے ہيں اور وہ مستقلاً مصیبتوں کے شکار رہتے ہیں۔

پس، جو لوگ اس دنیا میں پُرسکون اور خوش گوار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ ربِ کعبہ کے طے شدہ اصول و ضوابط کے انحراف سے باز آئیں۔ اپنے والدین کے ساتھ نیکی، محبّت اور شفقت کا سلوک کریں، تاکہ مسّرت اور خوشی سے بھرپور زندگی کی لذّت حاصل کرسکیں۔ (زاہد رؤف کمبوہ، غلّہ منڈی، گوجرہ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ)