سوشل میڈیا پر جعلی ، جھوٹی اور شرانگیز خبروں کی روک تھام کے نام پر بنائے جانے والے قانون الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کی خامیوں کی نشان دہی ملک بھر کے صحافتی اور آزادی رائے کے علمبردار سیاسی و عوامی حلقے پارلیمان میں اس کے پیش اور منظور کرائے جانے کے عمل کے دوران ہی کرتے چلے آرہے ہیں تاہم حکومت نے غیرمعمولی عجلت سے کام لیتے ہوئے اسے نہ صرف دونوں ایوانوں سے منظور کرالیا بلکہ جمعرات کو صدر مملکت نے اس پر بلا چون وچرا دستخط کرکے کسی اصلاح و بہتری کے بغیر اس کے نفاذ کی راہ بھی ہموار کردی۔ یہ پیش رفت شدید ردعمل کا سبب بنی اور جمعے کو پورے ملک کی صحافی برادری نے اس قانون کے خلاف یوم سیاہ منایا۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب میں سینئر صحافیوں، میڈیا ورکرز، اینکرز اور سول سوسائٹی کے ارکان نے آزادی اظہار پر حکومت کے کریک ڈاؤن کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ پی ایف یو جے کے صدر سمیت مقررین کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پارلیمانی اراکین نے پیکا ترامیم پر اپنے عہد کی خلاف ورزی کی ہے ۔معترضین کے بقول اس قانون کو صحافیوں، سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں اور عام شہریوں کے خلاف ہتھیار بنایا جا سکتا ہے۔خدشہ ہے کہ قانون میں مبہم الفاظ کا استعمال جعلی خبروں کی روک تھام کے بجائے اختلافی آوازوں کو نشانہ بنانے کیلئے کیا جائے گا۔ایک اور اہم پیش رفت لاہور ہائی کورٹ میں پیکا کو چیلنج کیے جانے کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پیکا ترامیم منظور کرنے سے قبل میڈیا اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی۔ قانون کوضروری جانچ پڑتال کے بغیر ایک تیز رفتار عمل کے ذریعے منظور کرالیا گیا۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ سوشل میڈیا کو جھوٹ اور شرپسندی سے روکنے کے نام پر وضع کیے جانے والے اس قانون کو متعلقہ حلقوں سے کسی مشاورت کے بغیر منظور کرالینے سے بجا طور پر بدگمانی کے قوی خدشات نے جنم لیا ہے ۔ جعلی خبر کی غیرمبہم تعریف نہ کرکے ہر مخالف کی آواز دبادینے کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ یہ اندیشے ملک کے اندر ہی نہیں باہر بھی محسوس کیے جارہے ہیں جس کا ایک نمایاں مظہر یورپی یونین کا یہ انتباہ ہے کہ پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس آزادی رائے اور انسانی حقوق سے مشروط ہے۔تاہم متنازع قانون سازی کے حوالے سے یہ پیش رفت اطمینان بخش ہے کہ گزشتہ روز اہم حکومتی شخصیات نے پیکا میں اصلاح و بہتری کی ضرورت کو تسلیم کرلیا ہے۔ جیو کے پروگرام میںسینیٹرعرفان صدیقی نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہا ہے کہ’’مانتا ہوںپیکا قانون سازی پر حکومت نے جلد بازی کی لیکن یہ ایسا معاملہ نہیں جس کی اصلاح نہ ہوسکتی ہو‘‘۔ وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے پیکا کی خاصی وکالت کے باوجود آخر میں یہ بھی کہا کہ ’’پیکا ترامیم کے لیے قواعد کو حتمی شکل دینا ابھی باقی ہے اور حکومت صحافیوں اور میڈیا تنظیموں سے مشاورت کے لیے تیار ہے‘‘۔وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر عقیل ملک کا بھی کہنا تھا کہ’’اگر صحافیوں کے نزدیک قواعد میں ترمیم یا مخصوص شقوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، تو ہم اس پر بات کرنے کوتیار ہیں‘‘ ۔ لہٰذا حکومت کو اب کسی لیت و لعل کے بغیر صحافیوں سمیت پیکا میں اصلاح کی ضرورت ظاہر کرنے والے تمام حلقوں کو فوری طور پر بامقصد بات چیت کیلئے مدعو کرنا چاہیے اور ان کے تمام جائز خدشات کا ازالہ کرکے پیکا کو حقیقتاً جھوٹ ،فریب، شرپسندی اور بے حیائی سے پاک ایک مہذب، شائستہ اوربااخلاق معاشرے کی تشکیل کا ذریعہ بنانا چاہیے۔علاوہ ازیں قانون سازی کے عمل کو مستقل طور پر جمہوری اور آئینی طریق کار کے مطابق انجام دیا جانا چاہیے تاکہ پارلیمان کے بارے میں کسی کے آلہ کار اور ربراسٹیمپ ہونے کا ناقابل رشک تاثر ختم ہو۔