سرکاری معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کم ہو رہی ہے مگر حکومت اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی ضروریات زندگی میں اضافہ کر رہی ہے۔یکم فروری سے اس نے ایک بار پھر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی ہیں جبکہ ایل پی جی کی قیمت میں 3روپے 68پیسے فی کلو کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس کا براہ راست اور بالواسطہ عوام پر ہی اثر پڑے گا۔یکم فروری سے پٹرول ایک روپے فی لیٹر اور ڈیزل 7روپے فی لیٹر مہنگا ہونے سے پٹرول کی نئی قیمت 257روپے 13پیسےفی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 267 روپے 95 پیسے ہو گئی ہےجس پر 15فروری تک عملدرآمد جاری رہے گا۔پیٹرولیم مصنوعات میں یہ مسلسل تیسرا اضافہ ہے۔قیمتوں میں اس ردوبدل کا سبب عالمی سطح پر تیل کے نرخوں میں اتار چڑھاؤ بتایا جاتا ہے۔گزشتہ پندرہ دنوں میں بین الاقوامی مارکیٹ میں ہائی سپیڈ ڈیزل کی اوسط قیمتوں میں 2اعشاریہ 50ڈالر فی بیرل اور پٹرول کی قیمت میں تقریبا 50سینٹ فی بیرل کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔متحدہ عرب امارات میں بھی تیل کی قیمتوں میں چار سے ساڑھے پانچ فیصد تک اضافہ کی شنید ہے۔پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں اضافے سے صارفین جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان کی مشکلات بڑھیںگی۔پٹرول بنیادی طور پر نجی ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور دو پہیوں والی سواریوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی قیمت میں اضافہ سے براہ راست متوسط اور نچلے طبقے کا بجٹ متاثر ہوتا ہے۔ڈیزل بنیادی طور پر ہیوی ٹرانسپورٹ گاڑیوں، ٹرینوں، ٹرکوں، بسوں، ٹریکٹروں، ٹیوب ویلز اور تھریشر وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے جس سے خاص طور پر سبزیاں اور کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں۔اس وقت حکومت دونوں مصنوعات پر 76روپے فی لیٹر ٹیکس،آئل کمپنیاں اور ان کے ڈیلرز 17روپے فی لیٹر ڈسٹری بیوشن اینڈ سیل مارجن بھی وصول کرتے ہیں جو عوام پر اضافی بوجھ ہے۔