پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بولی جانیوالی دنیا کی دسویں بڑی زبان پنجابی جو لوک دانش، صوفیانہ افکار اور عظیم ثقافتی ورثہ کی پرچارک ہے۔ آجکل بے شمار مشکلات کا شکار ہے، یہ زبان پنجاب کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب کے ادب، موسیقی اور ثقافت کا ایک ایسا بنیادی جزو ہے جس کی پذیرائی پورے ملک میں ہوتی ہے۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ ایسی شاندار زبان کے مستقبل پر مسلسل سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ نظام تعلیم کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے نئی نسل کی انگریزی کی طرف بڑھتی ہوئی رغبت اور دیگر زبانوں کا غلبہ، پنجابی کیلئے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ایک ہزار سال سے زائد ادبی ورثہ رکھنے والی پنجابی زبان کا شمار دنیا کی اہم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔ اسے دنیا بھر میں تقریباً 15 کروڑ افراد بولتے ہیں،جبکہ اس سے دگنی تعداد میں اسے سمجھتے ہیں۔ اسکے باوجود پنجاب کے اندر اسے نظر انداز کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ پنجابی کے فروغ کیلئے اب تک کی زیادہ تر کاوشیں ذاتی اور سماجی حیثیت میں کی گئی ہیں۔ سرکار کی عدم توجہی کے باعث اس زبان کا مستقبل ایک پیچیدہ صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف جہاں اس زبان کی عالمی سطح پر قدردانی کی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف اپنے ہی وطن میں اسے دوسری زبانوں کی نسبت نظر انداز کئے رکھنے کا رحجان ہے۔ اسکولوں میں اردو اور انگریزی کی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے، جسکی وجہ سے بچے ابتدائی طور پر پنجابی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ عام بول چال تک پنجابی بول سکتے ہیں مگر پنجابی پڑھنا انکے بس کی بات نہیں ، سرکاری اداروں ،اسمبلی اور عدالتوں میں نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے یہ زبان معاشرتی طور پر معتبر درجہ حاصل نہیں کرسکی۔ پاکستان میں پنجابی زبان کی عدم پذیرائی کی ایک بڑی وجہ یہاں کی سیاسی اور معاشی صورتحال ہے۔ اردو کو قومی زبان کے طور پر متعارف کراتے ہوئے پنجابی سمیت تمام پاکستانی زبانوں کو کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ آج تک یہاں کی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا ، دیگر صوبوں میں مادری زبان کو لازمی مضمون بنانے کے باعث وہ زبانیں آگے بڑھتی رہیں جبکہ پنجاب میں آج تک اسے پرائمری سطح پر لازمی مضمون نہ بنانے کی وجہ سےاس کی تعلیم و ترویج میں کمی آئی اور معاشرتی سطح پر اس زبان کا استعمال کم اور انگریزی کا اثر بھی بڑھتا گیا۔ انگریزی کو سائنس ، ٹیکنالوجی اور عالمی زبان ہونے کی وجہ سےکامیابی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پنجابی کے بجائے اردو اور انگریزی سکھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔اب تو اردو کی تعلیم بھی ایک مضمون تک محدود ہوگئی ہے اور نئی نسل اردو سے بھی اتنی ہی دور ہے جتنی پنجابی سے۔ اگر اسکولوں میں پنجابی لازمی ہوتی تو اردو کو اسکا بھی فائدہ ہونا تھا کیونکہ دونوں زبانوں میں کافی اشتراک موجود ہے۔ لیکن شروع میں جس طرح پنجابی زبان سے بیر رکھا گیا اور اسے ان پڑھ لوگوں کی زبان ثابت کرنے کا پروپیگنڈا کیا گیا اس کی وجہ سے بچے اور والدین اس زبان سے اجتناب کرنے لگے ہیں۔ میڈیا کا کردار بھی بہت مایوس کن ہے۔سندھ میں سندھی زبان کے کئی ٹی وی چینل اور اخبار موجود ہیں جبکہ پنجابی زبان میں کوئی بھی چینل موجود نہیں جو تھے وہ بھی ختم کر دیئے گئے۔ ریڈیو اسٹیشنز بہرحال کچھ کمی پوری کر رہے ہیں مگر انکی نشریات محدود علاقے تک ہی پہنچ پاتی ہیں۔ اسکے باوجود، پنجابی زبان کے تحفظ اور فروغ کیلئے مختلف ادارے اور لسانی و ثقافتی تنظیمیں بڑی جانفشانی سے کام کر رہی ہیں اور انہی کی وجہ سے پنجابی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پنجابی ادب، شاعری اور موسیقی کی عالمی سطح پر پذیرائی کی جاتی ہے۔ ڈھول کی تھاپ پر جھومنے والے اسے دلوں کی دھڑکن سے باندھ رکھتے ہیں۔جو پنجابی نہیں بولتا وہ بھی پنجابی گیت سنتا ہے۔صوفیا کے کلام اور موسیقی نے پنجابی زبان کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ یہ لوگوں کی روح اور دل کے قریب ہے۔ پنجابی زبان کے منفرد ثقافتی پہلوؤں کو اجاگر کرکے نئی نسل میں اسکے بارے میں آگاہی بڑھائی جا سکتی ہے۔ زبان کی اہمیت کو ثقافت اور تاریخ سے جوڑ کر پڑھایا جائے تاکہ وہ اسے اپنانے میں فخر محسوس کریں۔پنجابی زبان کی ترقی و ترویج کیلئے سب سے اہم قدم اس کی تدریس ہے۔ اسکولوں میں پنجابی کو ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بچے میں ابتدائی عمر سے اس زبان سے جڑت پیدا کی جاسکے۔ زبان کی تدریس کے ساتھ پنجابی ادب و ثقافت کو اسکول کے نصاب میں شامل کرکے بچوں کو اپنی زبان اور ثقافت سے جوڑا جا سکتا ہے۔پنجابی زبان کو نئی نسل تک پہنچانے کیلئے میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پنجاب سے چلنے والے چینلز میں ہفتے میں کم ازکم ایک پروگرام میںپنجابی زبان و ادب پر بحث ہونی چاہئے۔ سرکاری ٹی وی پر پنجابی زبان کے پروگرامز، ڈرامے، اور فلمیں نشر کی جانی چاہئیں تاکہ نوجوانوں کی دلچسپی بڑھے۔ سوشل میڈیا پر پنجابی زبان کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے بلاگ، ویڈیوز اور پوسٹس کی تخلیق کی جانی چاہئے۔ اگرچہ پنجابی زبان کو بچانے اور اسے اس کا مقام دلانے کیلئے بہت سے اقدامات ضروری ہیں مگر سوچیں تو پنجابی زبان کا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم سب صرف باتیں کرنیکی بجائے عملی طور پر اسے اپنائیں، آج سے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنالیں تو نہ صرف ہم اپنی عظیم زبان بلکہ اپنی ثقافت کو بھی بچا سکتے ہیں۔