اسلام آباد (مہتاب حیدر)اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی محکموں کی صوبوں کو منتقلی کے طریقۂ کار میں جوترقیاتی پراجیکٹس سب سے زیادہ نشانہ بنے ان کی ایک اہم مثال 400 بستروں کے ویمن ہسپتال اینڈ چیسٹ ڈیزیز سینٹر راولپنڈی کی ہے جس کی کئی سال تک تکمیل کی مدت مقرر کئے جانے کے باوجود لاگت 300فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ پراجیکٹ مرکز اورپنجاب کے درمیان لٹکتا رہا ہے، اس کی عمارت کا 50فیصد کام مکمل ہونے کے باوجودکوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے اور ٹیکس گزاروں کے خون پسینے کی کمائی کے پیسے سے تعمیرکئے گئے ہسپتال کی اس زیرتعمیرعمارت میں اب بھوت رہ رہے ہیں۔ اس ملک کی خراب حکمرانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ہسپتال کی منظوری پرویز مشرف کے دور حکومت میں قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے اگست 2005ء میں دی تھی جس کی تکمیل کی مدت تین سال (2008ء) مقرر کی گئی تھی۔ راولپنڈی/ اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں مریضوں کے لئے بیڈ کا تناسب عالمی معیارسے بہت پست ہے مگر گیارہ سال ضائع کرنے کے باوجود عوام کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ یہ سب کچھ اسلام آباد کے حکمرانوں کی ناک کے عین نیچے ہورہا ہے جو اس ملک کے ریڈ زون میں صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے مگرنظراندازکیا گیا یہ پراجیکٹ ان حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کے کبھی قابل نہیں رہا ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے تحت کابینہ ڈویژن نے اکتوبر 2011ء کو اس پراجیکٹ کی کفالت کی ذمہ داری لی تھی جبکہ پی ڈبلیو ڈی پر اس پرعملدرآمد کی ذمہ دارتھی۔ اس کے اصل پی سی ون کی لاگت ایک ہزارتین سو 25ملین روپے تھی۔ اس کی تکمیل کی مدت تین سال رکھی گئی (30جون 2013ء) اس پر 1009.511روپے آئے ہیں جبکہ اب تک اس کا 53فیصد کام مکمل ہوا ہے۔ چند ماہ پیشتر تک کی تازہ ترین پیشرفت کے مطابق ایئرکنڈیشن یونٹس پہنچا دیئے گئے تھے جبکہ ان آلات کی وارنٹی کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن نے اس پراجیکٹ کو پنجاب حکومت کے حوالے کرنے کے سلسلے میں ایک اجلاس منعقد کیا تھا مگر پنجاب حکومت نے اس پراجیکٹ کی تکمیل میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ اس پراجیکٹ کی لاگت بڑھ کر300 فیصد (3925 ملین روپے) تک جاپہنچی ہے اگر مرکز اور پنجاب حکومتوں کی طرف سے بروقت فیصلہ نہ کیا گیا تو اس کی لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔ پنجاب حکومت کی دلیل یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے مکمل ہونے کے بعد ہی یہ پراجیکٹ اس کے لئے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ادھرمرکزی حکومت کا موقف یہ ہے پنجاب حکومت کواس پراجیکٹ کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرنا چاہئے جیسا کہ اس نے میٹرو اور توانائی جیسے میگا پراجیکٹ مکمل کئے ہیں۔ یا کچھ ٹھوس حکمت عملی وضع کرنی چاہئے کہ کیا وہ یہ کربھی سکتے ہیں یا نہیں یا انہیں عوام کا بھاری پیسہ بچانے کے لئے وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھ جانا چاہئے جوایک ارب 30کروڑ روپے کے لگ بھگ رقم محض ضائع کررہی ہے۔ مرکزی حکومت کا خیال یہ ہے کہ صوبائی سطح پرہیلتھ کیئر کی سہولیات کا وسیع نیٹ ور ک ہے جو صوبائی محکمہ صحت کے زیرِ انتظام ہے جس میں 946ہسپتال، 4554ڈسپنسریاں، 5290 بنیادی صحت مراکز اور ذیلی صحت مراکز، 907 ماں و بچہ صحت مراکز، 552 دیہی صحت مراکز اور 289 ٹی بی سینٹر چل رہے ہیں۔