اسٹاک مارکیٹیں دنیا بھر میں معیشتوں کے اہم ستونوں میں سے ایک ہیں جو کاروباری اداروں کو اپنی کمپنیوں کے حصص عوامی سطح پر فروخت کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ عالمی اور مقامی حالات میں تبدیلیوں کے باعث ان مارکیٹوں میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ کبھی انکا گراف بلندیوں کو چھوتا ہے تو کبھی شدید مندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے نئے اقدامات سے عالمی و ایشیائی مارکیٹوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ٹوکیو،سیئول،سنگاپور،ویلنگٹن،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی اسٹاک مارکیٹیں مندی کی لپیٹ میں رہیں۔ مستحکم سمجھے جانیوالے سوئس فرینک،چین،کینیڈا اور میکسیکو کرنسی کی قدر میں میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔ نئے کاروباری ہفتے کے پہلے روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔عالمی مارکیٹوں میں مندی اور ملکی سیاست میں ایک بار پھر احتجاج کی گونج سے سرمایہ کاروں نے محتاط رویہ اپناتے ہوئے زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کی۔مندی کے سبب 58.22فیصد حصص کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی جبکہ سرمایہ کاروں کے ایک کھرب 20ارب روپے ڈوب گئے۔انڈیکس کی ایک لاکھ 14ہزار اور ایک لاکھ 13ہزار کی دو نفسیاتی سطحیں بھی گر گئیں۔ سرمایہ کاری مالیت 120ارب 83کروڑ 22لاکھ روپے گھٹ گئی۔ کاروباری حجم بھی 26.08فیصد رہا تاہم سیمنٹ کے شعبے میں خریداری کی سرگرمیاں نمایاں رہیں۔جنوری 2025ءمیں ملک میں سیمنٹ کی مقامی کھپت 3.313ملین ٹن رہی جو جنوری 2024ءمیں 2.967ملین ٹن تھی۔انٹر بینک میں ڈالر9پیسے مہنگا ہوا۔سونے کی قیمت میں نئے ریکارڈ بننے کا سلسلہ جاری رہا۔اس وقت مہنگائی میں کمی کے خوش آئند سرکاری اعداد وشمار سامنے آ رہے ہیں لیکن یہ اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک وہ عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی نہ لائیں۔2024ءمیں اسٹاک مارکیٹ کا 100انڈیکس اپنی تاریخ کی بلند ترین 118.735پر پہنچ گیا تھا لیکن اسکے اثرات سے عام آدمی مستفید نہ ہو سکا تھا۔