پیر کے روز سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں سے منظور کردہ قوانین کی صورت میں ایک طرف زرعی آمدن پر ٹیکس پورے پاکستان میں نافذ ہوگیا، دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی اہم شرط بھی پوری ہوگئی۔ واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں سے زرعی انکم ٹیکس قوانین کی منظوری کے بعد مذکورہ دونوں صوبے پہلے ہی زرعی انکم ٹیکس کی زد میں آچکے ہیں۔ اب بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں سے منظور کئے گئے قوانین کی صورت میں پورے ملک کا زرعی شعبہ آمدن ٹیکس کی زد میں آچکا ہے۔ سندھ اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور قانون کے تحت سالانہ 6لاکھ روپے تک زرعی آمدن ٹیکس سے مستثنیٰ قرار، جبکہ سالانہ 56لاکھ سے زائد زرعی آمدنی پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 45فیصد ہوگی۔ پروگریسیو سپر ٹیکس بھی متعارف کرایا گیا جس کے تحت سالانہ 15کروڑ روپے تک آمدن پر سپر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ سالانہ 50کروڑ روپے سے زائد آمدن پر زیادہ سے زیادہ 10فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔ چھوٹی کمپنیوں کی زرعی آمدن پر 20فیصد جبکہ بڑی کمپنیوں کیلئے ٹیکس کی شرح 28فیصد مقرر کی گئی۔ زرعی ٹیکس سندھ ریونیو بورڈ جمع کریگا۔صوبائی وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ قانون منظور نہ کرتے تو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ متاثر ہوتا، ہمارا ملک زرعی ملک ہے، خدشات ہیں کہ زمینداروں کو بہتر آمدن نہ ملی تو وہ کوئی اور کاروبار کرینگے۔ صوبائی وزیراعلیٰ کی ان باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے وفاق اور صوبوں کو مل کر ایسی حکمت عملی بنانی چاہئے جسکے تحت زرعی پیداوار بڑھانے کی ترغیبات اور سہولتیںبڑھیں۔ ایسے حالات میں، کہ اس برس سردیوں میں خشک سالی کے باعث پیداوار متاثر ہوئی، ہنگامی اقدامات اور زراعت کے جدید طریقے بروئے کار لانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ملک کو قحط سالی سے بچانے کی تدابیر غذائی ضروریات پوری کرنے اور معیشت کو ابتری سے بچانے کا لازمہ ہیں۔