• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

نہ اب حیدر منزل ہے نہ 90 عزیز آباد اب تو 70 کلفٹن کی سیاست بھی بلاول ہائوس منتقل ہوگئی ہے ۔ یہ تین گھر ایسے ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے سندھ کی ’’سیاسی ولسانی‘‘ سیاست سے جڑا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کے تینوں نے اپنے تئیں جب بھی قریب آنے کی کوشش کی اُنہیں دور کر دیا گیا جو بنیاد بنی اس صوبہ میں ’’سیاسی و لسانی‘‘ تقسیم کی، جس کی قیمت صوفیوں کی اس سرزمین نے ہزاروں افراد کے خون سے ادا کی۔ اس سلسلے کا بنیادی مقصد ہی یہ بتانا تھا کہ وہ کونسی قوتیں ہیں اور شاید اب بھی ہیں جو ان دو بڑی اکائیوں کو اکٹھا دیکھنا نہیں چاہتیں اب یہ چیلنج یا شعور، روشن خیال دانشوروں، لکھاریوں اور ادیبوں کا ہے کہ وہ اپنا اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بادیِ النظر میں صوبے پر نااہلیت، کرپٹ افسران اور سیاستدانوں کا راج ہے جبکہ نظریاتی لوگ ناپید ہوتے جارہے ہیں نہ نظریاتی سیاست نہ قیادت اب تو نظریہ پر قائم رہنے والے سیاسی کارکن بھی’’چمک‘‘ کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب ’’لسانی‘‘ کشیدگی اپنے عروج پر تھی تو کراچی میں ہی سول سوسائٹی، صحافیوں، وکیلوں اور دانشوروں نے ایک اجلاس میں اس حوالے سے متفقہ موقف اپناتے ہوئے اسے سازش قرار دیا تھا۔ اُن میں سے ہی ایک صحافی جناب غلام نبی مغل صاحب نے میرے یہ کالم پڑھ کر مجھے ٹیلیفون کر کے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا، ’’مظہر صاحب، مہاجر قومی موومنٹ کا نام تبدیل کرنے کا کچھ کریڈٹ مجھے بھی جاتا ہے۔ ایک ملاقات میں الطاف حسین سے جب میں نے یہ درخواست کی کہ آپ اپنی جماعت کا نام تبدیل کریں گے تو اس کے مثبت نتائج آئینگے۔ انہوں نے بغیر کوئی تمہید باندھے مجھ سے کہا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘‘۔ حیدر منزل سائیں جی ایم سید کی رہائش گاہ تھی اور اس عمارت کی بڑی تاریخی اہمیت تھی بڑے بڑے سیاستدان یہاں آئے۔ گھر بھی کراچی میں نشترپارک کے پاس ہی تھا۔ سائیں کی وفات کے بعد کہتے ہیں خاندانی اختلافات کے باعث اس کی حفاظت ایک تاریخی سیاسی عمارت کے طور پر نہ ہوسکی۔90عزیز آباد بانی متحدہ الطاف حسین کی قیام گاہ رہی ہے۔ 120گز کے اس مکان میں شاید ہی پاکستان کا 80کی دہائی کے بعد کا کوئی سیاسی لیڈر ہو جو نہ آیا ہو یہاں تک کے 50 اور 60کی دہائی والے خان عبدالولی خان بھی آچکے ہیں۔ اِس ’’گھر ‘‘کے بند ہونے کی کہانی حیدر منزل سے یکسر مختلف ہے اسے ’’سیل‘‘ کر دیا گیا تھا چند سال پہلے اس میں آگ لگ گئی تھی۔22اگست 2016ء کے بعد سے 90اور ایم کیو ایم (لندن) کے تمام دفاتر بند ہیں کیا خورشید میموریل ہال اور کیا ایم پی اے ہاسٹل۔

ایک وقت تھا جب سائیں جی ایم سید اور الطاف حسین ایک دوسرے کے قریب آئے جس نے اردو بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا اور جب وہ سیاسی طور پر قریب آنا شروع ہوئے تو ’’تقسیم‘‘ کرنے والی قوتوں نے اپنا کھیل شروع کر دیا اور تقسیم لسانی کشیدگی میں تبدیل ہو گئی۔ غور کریں تو جئے سندھ تحریک بھی ایک ردعمل تھی سید صاحب کی مسلم لیگ سے ناراضی پر کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی اُس وقت ایک ردعمل کا نتیجہ تھی جس کا تعلق اُس وقت کے اردو بولنے والے نوجوانوں کے داخلے اور نوکریوں سے تھا اور اس پوری صورتحال کو ملک میں 1977ء کا مارشل لا لگنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے پی پی پی مخالف بیانیہ کیلئے استعمال کیا۔ 1988ء میں جب پہلی بار بینظیر بھٹو برسراقتدار آئیں تو اُس وقت تک سندھ میں بہت خون خرابہ ہوچکا تھا دونوں طرف کے ہزاروں لوگ مارے گئے تھے خاص طور پر حیدر آباد اور کراچی میں عام انتخابات سے چند ہفتے پہلے صرف دو دن میں 300 سے زائد لوگ مارے جاچکے تھے جس کے اثرات الیکشن میں سامنے آگئے۔ دیہی سندھ مکمل پی پی پی کے ساتھ اور شہری سندھ مکمل ایم کیو ایم کے ساتھ۔ دونوں طرف کی لیڈر شپ نے سیاسی سوچ کا مظاہرہ کیا اور معاہدہ ہوا پھر کیا ہوا اس کی تفصیل گزشتہ کالم میں موجود ہے۔ اس اتحاد کو توڑنے والی قوتیں بھی بے نقاب ہیں۔ سندھ کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ نظریاتی سیاست کے خاتمے کے بعد قوم پرست سیاست نے پورے ملک میں زور پکڑا خاص طور پر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد مگر قوم پرست جماعتوں یا گروپس کو انتخابی کامیابی کبھی نہیں ملی تو وہ پریشر گروپس بن گئے۔ رسول بخش پلیجو صاحب کی عوامی تحریک میں ملک گیر جماعت بننے کی صلاحیت موجود تھی مگر انہوں نے اپنے آپ کو سندھ تک محدود کرلیا۔ رہ گئی بات مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی جو بڑی جماعتیں ہیں مگر ان دونوں نے سندھ پر توجہ نہیں دی جبکہ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی کو خاطر خواہ انتخابی کامیابی نہیں مل سکی ماسوائے بلدیاتی الیکشن میں۔ یوں سندھ میں عملی طور پر پی پی پی بے تاج بادشاہ بن گئی ہے مگر خراب گورننس اور نااہل بیوروکریسی کی فوج ظفر موج کی وجہ سے صرف ’’کرپشن میں ترقی‘‘ نظر آتی ہے۔ کیا وقت تھا جب سندھ سیاست اور ثقافت کا گڑھ تھا خاص طور پر حیدرآباد جہاں اعلیٰ معیار کے مشاعرہ بھی ہوتے تھے، موسیقی کی محفلیں بھی اور موسیقی پر کانفرنس بھی۔ تعلیمی اداروں میں پورے سندھ میں بحث اور مباحثہ کا کلچر تھا۔ کھیل کے میدان بھی تھے اور کھلاڑی بھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے والد مرزا عابد عباس مشاعرہ کرواتے تو مہمانوں کو ٹھہرانے کا ذمہ جناب قاضی اکبر کے اورینٹ ہوٹل میں مفت ہوتا جس کی ذمہ داری قاضی صاحب خود لیتے۔ سندھ نے جہاں پروفیسر کرار حسین، جناب محمود حسين، جی اے الانہ، شیخ ایاز جیسے ماہر تعلیم دیئے وہیں نامور شاعروں اور ادیبوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے اسی طرح محمد علی، مصطفیٰ قریشی جیسے اداکار، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ہارون جیسے انسان دوست ڈاکٹر اور سوشل ورکر آپ نام لیتے جائیں مگر آہستہ آہستہ آنے والے وقت کے لئے ہمیں وہ نئی کھیپ نظر نہیں آرہی۔ بہرحال سندھ کا ہر شہر اہم ہے البتہ معاشی حب کراچی ہونے کے ناطے اس کا ذکر زیادہ کیا جاتا ہے معاشی پہیہ چلے گا تو صوبہ اور ملک چلے گا مگر یہاں کا تو حال ہی نرالا ہے۔ سندھ کی ’’سیاسی و لسانی‘‘ تقسیم نے اس صوبے میں بسنے والی ہر کلاس خاص طور پر مڈل کلاس کو خاصا متاثر کیا ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ نفرتوں کو محبت میں بدلنے میں ہی ہے۔ طلبہ تحریک سے ون یونٹ تحریک تک، ایوب کے خلاف تحریک سے بھٹو کے خلاف تحریک تک، ایم آر ڈی کی تحریک سے لے کر مشرف کے خلاف ایک تاریخ ہے۔ اگر آج ان تحریکوں کا ’’شہر‘‘ نااہل اور کرپٹ اشرافیہ کھا رہی ہے تو یہ میرے اور آپ کے سوچنے کا سوال ہے کہ آخر ’’غلطی‘‘ کہاں ہوئی اور ہم کہاں اپنی سمت سے بھٹک گئے۔ مشرقی پاکستان ہمارے لیے بہت بڑا سبق تھا غلطیوں کو درست کرنے کا مگر ہم آج بھی وہی غلطیاں کر رہے ہیں سندھ، کے پی اور بلوچستان میں۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ اک دم نہیں ہوتا

تازہ ترین