• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جِیبا ہمارا محلے دار تھا۔جِیبا ایک آرٹسٹ تھا۔ جِیبے کا ہنر پتنگ سازی تھا۔ جِیبے جیسی متناسب اور متوازن پتنگ لاہور کا شاید ہی کوئی کاری گر بنا سکتا ہو، اور اگر لاہور کا کوئی کاری گر اس فن میں جِیبے کی ہم سری نہیں کر سکتا تھا تو پھر دنیا کے کسی اور شہر میں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کیوں کہ لاہور پتنگ بازی اور پتنگ سازی کا مرکز تھا۔ بلا شبہ جِیبا ایک سلیبرٹی تھا۔’جوہری‘ جِیبے کی قدر جانتے تھے اور اس سے پتنگیں بنوانے والوں کی قطار طویل ہوا کرتی تھی۔ بسنت کے آس پاس تو جِیبا بالکل ہی ’’شاہ رخ خان‘‘ بن جایا کرتا تھا، سفارشوں سے اس تک رسائی ہوتی، بڑی حد دو چار پتنگوں کا وعدہ کرتا اورمنہ مانگے دام وصول کیا کرتا۔ پچھلے ہفتے اخبار میں ایک تصویر دیکھ کر جِیبے کی یاد آ گئی۔ ہتھ کڑی پہنے کسی پتنگ ساز کی تصویر تھی، نیچے کیپشن لکھا تھا ’’پتنگ ساز رنگے ہاتھوں گرفتار۔‘‘

پنجاب حکومت بہت جوش و خروش سے پتنگ بازی کی ممانعت کی مہم چلا رہی ہے، کروڑوں کے اشتہارات چھاپے جا رہے ہیں جس میں پتنگ بازی کو ’’خونی کھیل‘‘ بتایا جاتا ہے۔ پنجاب میں ایک نیا قانون بھی پاس کیا گیا ہے جسکے تحت گُڈیاں اڑانے والے بچوں کو بھی گرفتار کیا جائے گا، پتنگ بازوں کو تین سے پانچ سال تک کی قید بھی کاٹنی پڑے گی۔

بسنت خونیں کھیل کب ہوا؟ لاہوریوں نے سال ہا سال تک ایک تیوہار کے طور پر بسنت منائی ہے، ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہم کوئی ’’خونی تیوہار‘‘ منا رہے ہیں۔ یعنی جوہری طور پر بسنت بہار کا ایک رنگین اظہار تھا جسے لاہوریوں نے ساری دنیا سے ہٹ کر ایک مسابقتی کھیل بنا دیا تھا۔ ہمارے لڑکپن میں بسنت پر ایک ہی اعتراض ہوا کرتا تھا کہ یہ ’’ہندوانہ‘‘ تیوہار ہے۔ یہ اعتراض بھی ہمیں بودا لگا کرتا تھا۔ ہندو تیوہار منانے ساری دنیا سے لوگ ہندوستان جاتے ہیں، پاکستان نہیں آتے۔ آپ نے کبھی سنا کوئی ہولی، دیوالی یا دسہرا منانے پاکستان آیا ہو؟ اور پھر یہ کیسا ’’ہندو‘‘ تیوہار تھا جسے منانے ہندوستان سے لوگ لاہور آیا کرتے تھے۔ سچی بات یہی ہے کہ بسنت دنیا بھر میں لاہور کے تیوہار کے طور پر جانا جاتا تھا، لاہوریوں نے پنجاب کے اس موسمی تیوہار کو نئی روح، نیا جسم، نیا رنگ، نئی باس عطا کی تھی۔ہر ’نارمل‘لاہوری کی طرح ہمیں بھی پتنگ بازی سے عشق تھا اور کم از کم ہم بچوں کے لیے بسنت سال کا سب سے بڑا تیوہار ہوا کرتا تھا۔ اب بسنت کے ’’خونی کھیل‘‘ بننے کی کہانی بھی سُن لیں۔

کچھ سال ہوئے کہ دھاتی ڈور اور کیمیکل ڈور کا تذکرہ ہونے لگا، اس سے لوگ زخمی ہونے لگے، ہلاکتیں ہونے لگیں، اخبارات کٹے ہوئے گلوں کی تصویریں چھاپنے لگے،دھاتی ڈور پر پابندی لگا دی گئی لیکن حکومت یہ قانون نافذ کرنے میں ناکام ہو گئی، اور پھر ایک دن بسنت کے تیوہار پر ہی پابندی لگا دی گئی، اور راتوں رات ہزاروں ہنرمندوں کا معاشی گلا کاٹ دیا گیا۔

ہم جیسے لاہوری حیران تھے کہ ایک نالائق حکومت جو قانون پر عمل درآمد نہیں کروا سکتی اس نے یہ کیا حل نکالا ہے، صدیوں پرانے تیوہار پر پابندی کیوں کر لگ سکتی ہے؟ ہندوستان میں کمبھ میلے کے دوران اکثر حادثات ہو جاتے ہیں، ابھی پچھلے ہفتے بھی کمبھ میلے میں لگ بھگ پچاس لوگ ہجوم نے روند ڈالے، مگر کسی اخبار نے ان کچلی ہوئی لاشوں کی تصاویر چھاپ کر اس ’’خونی میلے‘‘ پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا۔ حکومتیں قانون بناتی ہیں، سختی سے نافذ کرتی ہیں، انسانی جان کے تحفظ کی بھرپور کوشش کرتی ہیں،تیوہاروں پر پابندیاں نہیں لگاتیں، اپنی زمین سے پھوٹی ہوئی سینکڑوں سالہ تہذیب پر پابندی لگانا بہ ذاتِ خود وحشیانہ عمل ہے۔ حتیٰ کہ اسپین میں آج بھی پامپلونا کی گلیوں میں بیلوں کے آگے شہری دوڑتے ہیں، گو کہ اب بہتر قوانین کی وجہ سے کم جانیں ضائع ہوتی ہیں، کم لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ اگر پامپلونا پنجاب میں ہوتا تو اس تیوہارکو ’’خونی‘‘ قرار دے کر کب کا بند کر دیا جاتا۔ ایک زمانے میں کرکٹ کے کھیل میں سر پہ بال لگنے سے کئی کھلاڑی جان کی بازی ہار جایا کرتے تھے، مگر کرکٹ پر پابندی لگانے کے بہ جائے ہیلمٹ ایجاد کیا گیا۔ (شکر کیجیے کرکٹ صرف پنجاب کا کھیل نہیں ہے) موٹر سائیکل حادثات میں جان کے زیاں کو روکنے کے لیے موٹر سائیکل کو ’’خونی سواری‘‘ قرار دے کر پابندی نہیں لگائی جاتی، ہیلمٹ کا قانون بنایا جاتا ہے۔

بات فقط اتنی سی ہے کہ حکومت اور اس کے تمام ادارے مل کر بھی ایک دھاتی ڈور پر پابندی کا قانون نافذ نہیں کر سکتے، لہٰذا پورے تیوہار کو ہی ’’خونی‘‘ قرار دے دیا گیا ہے ۔ ہماری رفیع الشان انٹیلی جنس ایجنسیاں مطلوب افراد کو پاتال سے بھی نکال لاتی ہیں، مگر کیمیکل اور دھاتی ڈور بیچنے والوں کو نہیں ڈھونڈ سکتیں۔بسنت دنیا بھر میں ہماری شناخت کا باعث تھی، ہماری شناخت ہم سے چھین لی گئی ہے۔ اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو۔ ( جِیبا جی اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ آج بھی ہمارے لیے سلیبرٹی ہیں، آپ جیسا تِیرا کوئی بنا ہی نہیں سکتا)

تازہ ترین