A lack of good will on part of India
یہ ایک فقرہ آج تک کے کشمیری عوام کے مصائب کی مکمل داستان کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مذکورہ بالا فقرہ کسی آج کے معاملہ فہم کا نہیں ہے بلکہ جوزف کاربل کا ہے جو چیک سفارت کار تھے اور وہاں پر کميونسٹ انقلاب آنے کے بعد 1948 میں جان بچا کر امریکہ بھاگ گئے تھے اور ان کو 1948 میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان پرجو کشمیر پر قائم کیا گیا تھا ،کا سربراہ مقرر کر کے روانہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ڈينجر ان کشمیر‘‘ میں یہ فقرہ تحریر کیا ہے ۔جوزف کاربل کی بیٹی میڈلین البرائٹ بل کلنٹن دور حکومت میں امریکہ کی وزیر خارجہ بھی رہی اور یہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیر خارجہ بھی تھی ۔ اس تعارف کا تذکرہ کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اس امر کا بخوبی علم ہونا چاہئے کہ ہر دور کے امریکی عہدے دار مسئلہ کشمیر کی جزئیات تک سے بہت اچھی طرح سے آشنا رہے۔ بر سبيل تذکرہ بیان کرتا چلوں کہ میڈلین البرائٹ کی صاحبزادی اليس البرائٹ ابھی جو بائیڈن دور حکومت میں ملينم چیلنج کارپوریشن کی سی ای او تھی ۔ یہ تمام معروضات میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام محترم شفقت عباس کی جانب سے کشمیر پر سجائی گئی علمی بیٹھک میں پیش کر رہا تھا۔ محترم مجیب الرحمن شامی، محترم سلمان غنی جیسی قد آور شخصیات رونق محفل، جان محفل تھیں۔ اب امریکہ میں ٹرمپ کارڈ دوبارہ پوری طاقت سے دوڑنے کا آغاز کر چکا ہے اور ٹرمپ ہمارے خطے کے امور سے پوری طرح سے آگاہ ہے۔ اور اس خطے کے مسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہی انہوں نے پاکستان کی مدد سے دوحہ معاہدہ کیا مگر پاکستان اس سے صرف اتنا حاصل کر سکا کہ جب جولائی 2019 میں اس وقت کے وزیر اعظم امریکہ کا دورہ کرکے اور ٹرمپ سے ملکر آئے تو اس بات پر ہی خوشی سے اتنے نہال تھے کہ انہوں نے ایئر پورٹ پر ہی کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ میں کسی باہر کے دورے سے نہیں آ رہا بلکہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔‘‘ جب صرف ایک ملاقات سے ہی معاملات امریکہ اپنی مرضی سے طے کروا سکتا تھا تو اس کو مزید کچھ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ گئی تھی؟ حالانکہ امریکہ کو اس وقت پاکستان کی اس قدر ضرورت تھی کہ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی تک کی بات کی تھی مگر ہم ملاقات کرکے ہی لڈیاں ڈال رہے تھے اور اس دوران انڈیا پانچ اگست دو ہزار انیس کا اقدام کرنے کے قابل ہو گیا۔ چلو یہ تو ماضی ہوا اور ماضی پر رونے دھونے سے اب کیا حاصل؟ مگر ماضی سے سبق تو سیکھا جا سکتا ہے۔ کسی کو یہ اچھا لگے یا برا دنیا میں اس وقت حقیقت یہ ہی ہے کہ امریکہ دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے اور ہم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ مسئلہ کشمیر سمیت متعدد ایسے امور ہیں کہ جن پر پاکستان کو امریکی حمایت درکار ہے۔ مگر کیسے؟ اس کیسے کا جواب بہت سادہ سا ہے۔ پاکستان کو امریکہ سے گفتگو اپنی پوزیشن اپنی طاقت کو سامنے رکھتے ہوئے کرنی چاہئے۔ یہ طرز عمل ہی سرے سے غلط ہے کہ ہم وطن عزیز کو کبھی افغانستان کے امور سے جوڑ کر امریکا سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں اور کبھی کسی اور فلانے ڈھمکانے معاملےکو اپنی سپر قرار دیتے ہیں۔ اس گئی گزری معاشی صورتحال میں بھی پاکستان اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے اور اگر ہم موجودہ معاشی صورتحال سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر تو گفتگو کیلئے ہماری اپنی حیثیت بدر جہا بہتر ہو گی۔ اس وقت اس کو اچھی طرح سے پرکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے ہاتھ میں اس وقت کیا ہے اور پاکستان ان دستیاب وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کن مسائل پر گفتگو کرنا چاہتا ہے، اہداف کیاہیں اور انکو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس ساری صورت حال پر نظر رکھنے کی بنیادی طور پر ذمہ داری دفتر خارجہ کی ہے اور یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ سرکاری افسران پیپر ورک تو بہت اچھا، خوش نما کر سکتے ہیں مگر پالیسی سازی انکے بس کی بات نہیں ہوتی اور اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دنیا کے دیگر ممالک کی مانند پاکستان نے بھی دفتر خارجہ سے منسلک کچھ تھنک ٹینکس قائم کر رکھے ہیں جو انسٹیٹیوٹس وغیرہ کہلاتے ہیں مگر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ان اداروں میں مختلف امور کے ماہرین کی بجائے دفتر خارجہ کے ریٹائرڈ افسران کی بطور آخری پناہ گاہ بنایا ہوا ہے اور ان پناہ گزینوں کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے ایک کے بعد دوسرے بچے کو بھی یہاں پر نوکری دلا دیں۔ میں پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ ان اداروں میں کوئی تحقیقی کام نہیں ہو رہا اور اس دوران اگر ان کی جاری کردہ مختلف امور پر رپورٹس کا مطالعہ کر لیا جائے تو میری بات کی گواہی دی جا سکتی ہے۔ اور اسی وجہ سے اگر امریکہ سے کوئی سابق سفارت کار بھی آ جائے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ امریکی انتظامیہ کی کیا ترجیحات ہیں اور وہ ان کے حصول کیلئے کن اقدامات کو بروئے کار لائیگی۔ اگر کوئی امریکی یہاں آ کر بڑی بڑی باتیں کرنے لگے تو یہ ہماری تسلی و تشفی کیلئے کافی ہو جاتا ہے حالانکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ زمینی حقائق کیا کہہ رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بھی کام کرنے کی بہت گنجائش موجود ہے مگر ضرورت صرف اسکی ہے کہ ہم اس گنجائش کو استعمال کرنے کیلئے منظم حکمت عملی مرتب کریں ۔ مثال کے طور پر پاکستان نے اس حوالے سے کیا کام کیا ہے کہ اب پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دو سال کیلئے غیر مستقل رکن بن گیا ہے اور جولائی میں تو پاکستان اس کا صدر بن جائے گا ۔ پاکستان اس دوران سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کریگا، امریکہ کو کیسے ہم خیال بنانا ہے؟ مسئلہ فلسطين پر ہم کیا کریں گے؟