(گزشتہ سے پیوستہ)
پروفیسر ایم اے ملک کی ایک پیش گوئی کہ 51 برس کی عمرمیں آپ کی زندگی کو شدید خطرہ،اور اگر بچ گئے تو لمبی عمر پائیں گے، دوسری پیش گوئی کسی ملک میں سفیر بننے کی تھی اور یہ دونوں پیش گوئیاں لفظ بہ لفظ پوری ہوئیں۔ تیسری پیش گوئی یہ تھی کہ آپ سیلف میڈ انسان ہیں، آرام سے کھانا نہیں ملے گاتاہم میں خود کو سیلف میڈ ان معنوں میں نہیں سمجھتا کہ جس نے زندگی میں اپنے ٹارگٹ کے حصول کے لئے محنت کی ہو۔ اول تو زندگی میں میرا ٹارگٹ کوئی تھا ہی نہیں، اپنی پیدائش سے آج تک مجھے جو کچھ ملا میری خواہش اور کوشش کے بغیر ملا۔ ان کی ایک پیش گوئی میرے لئے حیران کن تھی، میں ان دنوں علامہ اقبال ٹائون میں رہتا تھااور اس سے بہتر کسی اور جگہ کے لئے کوئی پیسہ دھیلا بھی جیب میں نہیں تھا اور یہ دس مرلے کا پلاٹ بھی رائٹرز گلڈ کی طرف سے ملا تھا مگر پروفیسر ایم اے ملک کی پیش گوئی تھی کہ آپ زیادہ عرصہ اس گھر میں نہیں رہیں گے بلکہ اس سے بہت بہتر اور زیادہ سہولتوں والے گھر میں آپکا بسیرا ہوگااور ایسے ہی ہوا۔ جنگ جوائن کرنے کے دوران میر شکیل الرحمٰن میرے اقبال ٹائون والے گھر میں آئے تو دوران گفتگو کہنے لگے یہ گھر آپ کے لئے چھوٹا نہیں، میں نے کہا پہلے نہیں تھا مگر اب بچے بڑے ہوگئےہیں اور یوں مجھے احساس ہوتا ہے کہ دو بیڈ روم والے گھر میں ہم اب سما نہیںسکتے۔ پوچھنے لگے آپ کے پاس کوئی پلاٹ ہے، میں نے کہا جی ڈی ایچ اے کا ایک فیز ای ایم ای بالکل بے آباد تھا ،میں نے وہاںایک 27 مرلے کا پلاٹ آٹھ لاکھ میں خریدا تھا، وہ پڑا ہے۔ اس گفتگو کے بعد میر صاحب جب واپس کراچی گئے تو غالباً بیس لاکھ کا چیک مجھے بھیجا، جو بعد میں میری بار بار یاد دہانیوں کے بعد میں ان کی دی ہوئی رقم لوٹانے میں کامیاب ہواکہ وہ یہ رقم واپس لینا ہی نہیں چاہتے تھے۔ اس کے بعد اقبال ٹائون والا پلاٹ بیچ دیاجس کی قیمت اس وقت کہیں کی کہیں پہنچ چکی تھی اور یوں ملک صاحب کی پیش گوئی جس کے پورے ہونے کی مجھے ایک فیصد بھی امید نہیں تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔
ملک صاحب کی ایک پیش گوئی یہ تھی کہ آپ کی ذات میں وفا داری بہت ہے تاہم ممکن ہے کہ آپ نوائے وقت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں، مگر میں اور بہت کچھ کرسکتا تھا لیکن نوائے وقت چھوڑنے کا زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا ان دنوں میر صاحب مجھے جنگ آفر کررہے تھے اور نوائے وقت سے بیس گنا سہولتیں بھی اس سے وابستہ تھیں مگر میں کوئی کام پیسے کی غرض کے لئے نہیں کرسکتا اور نہ آج تک کیا۔ ان دنوں مجھے نظامی صاحب کی طرف سے ملی ایک تحریری سرزنش سے میرا دل بہت کھٹا ہوا، اس کے بعد کی پوری تفصیل میں اس سے پہلے اپنے ایک کالم میں بیان کر چکا ہوں، سو نوائے وقت بھی میں نے زیادہ پیسوں کے لئے نہیں چھوڑا، میں کوئی کام کسی لالچ کے تحت نہیں کرتا، نہ جنگ زیادہ پیسوں کے لئے جوائن کیا اور نہ زیادہ پیسوں کے لئے جنگ چھوڑا۔ ملک صاحب کی یہ پیش گوئی میرے لئے ایک صدمے کی طرح تھی کہ موجودہ ادارے سے آپ کی وابستگی ختم ہو جائے گی مگر ملک صاحب آپ نے اس ناممکن کام کے ممکن ہونے کا پہلے ہی بتا دیا تھا۔
’’وینس آپ کا اسٹار ہے، جو گاڈ آف لو ہے،ان کے لئے روپیہ مقصود نہیں ہوتا، مقصد عزیز ہوتا ہے‘‘ (ایم اے ملک) جمالیاتی حس بہت زیادہ ہے، ممکن ہے انہوں نے صحیح کہا ہو، ملک صاحب کی ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ ازدواجی زندگی کے حوالے سے یہ ہاتھAmbitious نہیں، اقتصادی خوشحالی کے باوجود ذہن کسی اور طرف نہیں جائے گا تاہم ایک عارضی فیز ممکن ہے۔ یہ سب کچھ میرے لئے حیران کن ہونے کے علاوہ یہ سوال بھی میرے ذہن میں چھوڑ گیا کہ زندگی میں آپ ہاتھ پیر مت ہلائیں، آپ کو اس کی ضرورت ہی نہیں، آپ کو سب کچھ پکا پکایا مل جائے گا، میرے حوالےسے یہ بات اس حد تک صحیح ہے کہ میں نے سفر نامے اور ڈرامے لکھنے میں بے پناہ محت کی مگر یہ کام کسی مقصد کے حصول کےلئے نہیں تھا یہ میرا شوق تھا چنانچہ جسے محنت کہتے ہیں وہ میں نے زندگی میں کبھی نہیں کی، صرف اپنے شوق پورے کئے، لہٰذا قارئین کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ہاتھ کی لکیریں نہ دیکھیں اپنے ٹارگٹ کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کریں، میرا کیس بالکل مختلف ہے اور ایسے ’’کیس‘‘ زیادہ نہیں ہیں۔ (جاری ہے)