دلکش شخصیت ، بہاریہ مزاج ، زمینی روایتوں اور آفاقی قدروں کا پرچارک اشفاق حسین اردو شاعری کاایک خوبصورت حوالہ ہے ، طالبعلمی کے دور سے کراچی جیسے بڑے شعری پنڈال میں توجہ کا مرکز بننے والا زندگی کی چھاگل کو نئے تجربوں سے سیراب کرنے کینیڈا چلا گیا مگر شعری اْفق پر نمایاں رہا، حالانکہ قدرت نے جس ظاہری وجاہت، اظہار کے سلیقے اور باطنی دانش سے نوازا تھا فلم کے در پر دستک دیتا تو اس نگر پر حکمرانی کر رہا ہوتا ،تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو شاعری کے پاس ایک ہیرو جیسا شاعر موجود ہے جو اپنی ذات کے طواف میں مصروف رہنے کی بجائے دنیا کو خیر کے لفظ سے بدلنے کا چمتکار کرنے کا خواہشمند ہے،اسےترقی پسند سوچ نے ہی فیض کا گرویدہ کیا ،کینیڈا میں ٹی وی ریڈیو سے منسلک رہا ، فیض میلے اور مشاعرے منعقد کئے ،ہندوستان پاکستان کی عظیم لکھاری شخصیات کی مہمان نوازی کی ، فیض کو بہت لوگ پڑھتے ہیں مگر اشفاق حسین نے فیض کے طویل مکالمے اور مباحثے کئے ،جو تحقیقی مضامین سے زیادہ دلکش ہیں۔اشفاق حسین کی شاعری میں عجب جاذبیت ہے ، انھیں سننا ان کے لفظوں کے سحر میں جکڑ جانے کے مترادف ہے۔ اشفاق حسین سے ایسے ہی شعری رابطے کے بعد 2007 میں پہلی بار کینیڈا جانا ہوا ، دو تین دن ان کی میزبانی کا لطف لیا تو ان کی شخصیت کے کئی مہربان رنگ اجاگر ہوئے ،ایئرپورٹ سے گھر جاتے ہوئے سڑک، زمین اور درخت مکمل طور پر برف میں ڈھکے ہوئے تھے ، ایکڑوں پر پھیلے ہوئے گھر میں سیبوں سے بھرے درخت عجیب منظر پیش کر رہے تھے، گھر کے لاؤنج ، مہمان خانے ، کچن ، ڈائنگ روم غرض ہر کونے میں فیض احمد فیض ، فراز ،پروین شاکر اور دیگر بڑے شاعروں ادیبوں سے جڑی ہوئی یادیں اور کہانیاں گلدانوں کی طرح سنبھال رکھی تھیں۔اشفاق حسین کی شاعری کا الگ ذائقہ اور منفرد تاثر ہے ، اْن کی شاعری دانش کے کواڑ پر دستک دینے سے پہلے دل کو جمالیاتی حِظ سے مالامال کرتی ہوئی احساس کو عجب سرشاری میں ڈھالتی ہے، سماعتوں کو بھلی لگتی ہے اور پورے ماحول کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ شعیب بن عزیز کے گھر جب ہمیںوہ کلام عنایت کررہے تھے تو یہ شاعری وجود میں ایک ساز کی طرح بجتی محسوس ہو رہی تھی ، جیسے ارد گرد لفظوں کا والہانہ رقص وجود کو کیف کے سمندر میں بہائے لے جارہا ہو ۔اشفاق حسین بیک وقت نظم اور نظم کے حوالے سے ایک جیسی پذیرائی حاصل کرتا ہے اس کی ایک وجہ شعر سنانے کا عمدہ ڈھنگ بھی ہے۔اشفاق حسین کی شعری تخلیقات کے ساتھ ساتھ فیض اور فراز پر عمدہ کام بھی بڑا توجہ طلب ہے، لیکن ان کا اصل عشق فیض کی ذات اور شاعری کے اسرار میں ہے،غور وفکر کے مختلف وسیلوں سے فیض کی شاعری میں موجود نئے جہان تلاش کرنے اور دنیا کو ان سے آگاہ کرنے کے سفر میں اس کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔فیض سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اب جب اپنی شعری کلیات چھاپنے کی باری آئی تو اپنے کسی مصرعے کی بجائے فیض کے ایک مصرعے سے عنوان اٹھایا جو بذات خود اپنے اندر بہت گہری معنویت رکھتا ہے’لو ہم نے دامن جھاڑ دیا‘۔پاکستان رائٹرز فاؤنڈیشن کے تعاون سے شائع کردہ یہ کتاب اس عہد کے بے مثال شاعر ، بہت عمدہ انسان اور مخلص دوست شعیب بن عزیز کے نام ہے جو نہ صرف ایک صاحب طرز شاعر ہے بلکہ ایسا مفکر ہے جس کا دھیما ،میٹھا اور صوفیانہ رنگ میں رنگا طرز حیات ہمیشہ خوشگواریت کا باعث رہا ہے۔اشفاق حسین کی شاعری کے کچھ رنگ ملاحظہ ہوں ۔
ڈوبے ہوؤں کی ایک نشانی میں ہم بھی تھے
سورج کے ساتھ جھیل کے پانی میں ہم بھی تھے
تھی حسن و انقلاب سے مشترکہ دوستی
کچھ روز کاروبارِ جوانی میں ہم بھی تھے
ہم کو بھی ایک شخص نے چاہا تھا ٹوٹ کر
خوشبو کی طرح رات کی رانی میں ہم بھی تھے
تیرے پہلو میں،ترے دل کے قریں رہنا ہے
میری دنیا ہے یہی،مجھ کو یہیں رہنا ہے
کام جو عمرِ رواں کا ہے،اسے کرنے دے
میری آنکھوں میں سدا تجھ کو حسیں رہنا ہے
دل کی جاگیر میں میرا بھی کوئی حصہ رکھ
میں بھی تیرا ہوں،مجھے بھی کہیں رہناہے
....
جب ہوئی اس کی توجہ میں کمی تھوڑی سی
خودبخود آگئی آنکھوں میں نمی تھوڑی سی
بن گیا پھول،بنانے تھے خدوخال اس کے
رہ گئی میرے تخیل میں کمی تھوڑی سی