• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئے دن خبر سنتے ہیں کہ کسی ناکام عاشق نے محبوب کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ یہ سفاکانہ حرکت وہ ’’عشاق‘‘ کرتے ہیں جنہیں یقین آ جاتا ہے کہ ان کے محبوب اب انکے نہیں رہے، بلکہ کسی اور کے ہو چکے ہیں، یوں کہیے کہ جب عاشق کو لگتا ہے کہ ایک شخص جو اُس کے قبضے میں تھا آزاد ہونے لگا ہے، جیسے اس کی ملکیت ناجائز طور پر چِھن رہی ہے، اور ملکیت بھی وہ جس پر اس کا ازلی ابدی حق تھا، تو سابقہ عاشق کے دل میں انتقام کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں، اور پھر یہی شعلے محبوب کا چہرہ مسخ کر دیتے ہیں۔ ’’اگر تم میرے نہیں ہوئے تو میں تمیں کسی کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا‘‘، یہ ہے وہ مریضانہ سوچ جو پھول جیسے چہروں پر تیزاب انڈیل دیتی ہے۔

سیاست دان اور اقتدار میں بھی عاشق و معشوق جیسا تعلق ہوا کرتا ہے، لیلیٰ اِقتدار جیسی اصطلاحات تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں اور زُلفِ اقتدار سنوارنے کے لیے سیاسی رہنمائوں کی بے تابیاں بھی ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ اور اگر یہ محبوبہ سیاست دانوں سے روٹھ جائے تو سیاست دان کیا کرتے ہیں؟ سیاست دان ہجرِ اقتدار میں تڑپتے پھڑکتے ہیں، جمالِ یار کا ہر حال میں دم بھرتے ہیں، اپنی وفائوں کا یقین دلانے کی تازہ کوششیں کرتے ہیں، عجزونیاز کا اظہار کرتے ہیں، التفات مانگتے ہیں، کبھی شعر، کبھی نالہ اور کبھی نعرہ بلند کرتے ہیں، مگر محبوب کا در نہیں چھوڑتے، ہر حال میں اُسی کھونٹے سے بندھے رہتے ہیں۔ اور پھر آخرِ کار کبھی اس لیلیٰ کا دل پسیج ہی جاتا ہے اور موسمِ وصل لوٹ آتا ہے، یہ ہیں ماہ و سالِ عندلیب اور یہ ہے گردشِ رنگِ چمن۔

آئیں اب آپ کی ملاقات ایک نئے طور اور نرالی طرز کے سیاست دانوں سے کرواتے ہیں جن سے محبوبہء اقتدار و اختیار روٹھ جائے تو اُن کا پہلا ردِ عمل یہ ہوتا ہے کہ ’’اس حرافہ کے چہرے پر تیزاب انڈیل کر اسے مسخ کر دیا جائے‘‘۔ یہ انتقام کی آگ اس قدر بے قابو ہوتی ہے کہ یہ اقتدار و اختیار، حکومت و سیاست سے آگے پھیل کر ریاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ چار دن پہلے صوابی میں گنڈاپور صاحب کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا جس کی تفصیل میں جانے کا تو یارا نہیں بس سادہ لفظوں میں یوں سمجھیے کہ انہوں نے تیزاب سے بھری ہوئی بالٹی اپنی ’’ماں‘‘ کے چہرے کی طرف اچھال دی۔ ہمیں پہلے بھی ان لوگوں سے شکایت رہی ہے کہ یہ نفرت میں سیاست و ریاست میں امتیاز نہیں کرتے، حکومت کو گالی دیتے دیتے، انہوں نے فوج کے خلاف دشنام طرازی شروع کر دی، اور اب صوابی جلسے میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر ریاست کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ یہ آشوب ناک طرزِ عمل ہے۔ پاکستان کے ایک صوبے کا وزیرِ اعلیٰ اپنے وطن کے گریبان میں ہاتھ ڈال رہا ہے، فقط اس امید پر کہ اس عمل پر اسکو اپنے لیڈر کی طرف سے داد ملے گی اور اس طرح شاید اُسکی وزارتِ اعلیٰ بچ جائیگی۔ یہ ذہنی پسماندگی راتوں رات واقع نہیں ہوتی، پتھر ڈھلوان پر کچھ دیر لڑھکنے کے بعد رفتار پکڑتا ہے۔ عمران خان نے اپنے سب سیاسی مخالفین کے چہرے پر ’’چور ڈاکو‘‘ کا تیزاب پھینکا، نفرت میں بجھا ہوا تیزاب، تاکہ ان کے تمام سیاسی حریفوں کا چہرہ مسخ ہو جائے اور صرف عمران خان کو زہرہ جبیں تسلیم کر لیا جائے۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ خود بھی سیاست دان ہیں اور دراصل اپنا چہرہ مسخ کر رہے ہیں۔ قصہ مختصر، آج عمران خان چوری اور ڈاکے کے ایک مقدمے میں سزا یافتہ قیدی ہیں۔جب عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو انہوں نے فوج کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع کی، اور علتِ سپہ سالاراں میں مبتلا، یعنی ایکسٹینشن کے شوقین باجوہ صاحب ایک سال تک چپ چاپ یہ تماشا دیکھتے رہے۔ اس نفرت انگیز مہم کا نتیجہ نو مئی کی صورت میں نکلا تھا جب سرفروشانِ کپتان نے شہداء کے مجسموں کے سر قلم کئے اور فوجی عمارتوں کو تیزاب سے غسل دیا۔ پتھر ڈھلوان پر یوں لڑھکتا ہے اور بہ تدریج مومینٹم حاصل کرتا ہے۔ اگر عمران خان پر سیاست و ریاست کا فرق عیاں ہوتا تو کیا وہ یہ ارشاد فرماتے کہ ’’ان چوروں ڈاکوئوں کو حکومت دینے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم گرا دیتے۔‘‘ یہ کیسی سیاست ہے جس میں پچیس کروڑ ہم وطنوں پر ایٹم بم گرانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے فقط اس لیے کہ اب آپ وزیرِ اعظم نہیں رہے۔ یہ کون سی سیاست تھی جس میں وزیرِ ہوا بازی غلام سرور خان کا ایک بیان قومی ایئرلائن پر ساڑھے چار سال کی پابندی لگوا دیتا ہے اور ریاست پاکستان اور کروڑوں پاکستانیوں کو 200 ارب روپے کا نقصان پہنچاتا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر دنیا بھر میں ہماری رسوائی کا موجب بنتا ہے؟ یاد رہے کہ اس ’’کارنامے‘‘ پر غلام سرور خان کو ان کے لیڈر نے بھرپور تھپکی دی تھی۔ریاست کو یہ سوچ کر چرکہ لگانا کہ اس سے حکومتِ وقت کا بھی کچھ نقصان تو ضرور ہو گا کوتاہ نظری کی انتہا ہے۔ شوکت ترین کس کے حکم پر آئی ایم ایف کو خط لکھ کر پاکستان کی امداد رکوانے کی کوشش کر رہے تھے؟ یہ کون سی سیاست تھی؟

ڈونلڈ ٹرمپ صاحب فرماتے ہیں کہ غزہ ایک رئیل سٹیٹ ہے، یہاں ہم نزہت گاہیں بنائیں گے، تفریحی مقامات بنائینگے، جوئے خانے اور شراب خانے بنائینگے اور فلسطینیوں کو یہاں سے دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیں گے جہاں وہ ’’ہنسی خوشی‘‘ زندگی گزاریں گے۔گنڈا پور صاحب، آپ کو اندازہ ہے کہ اپنا ملک کتنی بڑی نعمت ہوتا ہے، اور میرےبھائی نعمتوں پر ’’تُھو تُھو‘‘ نہیں کیا کرتے.... الحمدللہ کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔

تازہ ترین