محی الدین وانی آج کل وفاقی سیکرٹری تعلیم ہیں، وہ اس سے پہلے اور مختلف پوزیشنوں پہ کام کر چکے ہیں، وہ جس شہر میں گئے، جس صوبے میں گئے، ان کا فوکس تعلیم پر رہا، اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ ’’تعلیم ہی سے معاشرے ترقی کرتے ہیں، معاشروں میں مثبت تبدیلیاں تعلیم ہی کے طفیل آتی ہیں‘‘۔ جب سے محی الدین وانی وفاقی سیکرٹری تعلیم بنےہیں، انہوں نےاسلام آبادکے سرکاری تعلیمی اداروں پر اتنی توجہ دی ہے کہ وہ تعلیمی ادارے اب مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے کہیں بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ یقیناً اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیکرٹری تعلیم کی توجہ دن رات اسی پر مرکوز رہتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں کیسے بہتری لائی جائے۔ وہ اسلام آباد میں ایچی سن کالج کی طرز کا ایک شاندار سکول بنانے جا رہے ہیں، یہ سرکاری سکول سستا ہو گا، عام پاکستانیوں کی پہنچ میں ہو گا لیکن آج ایک اور سکول کی بات کرتے ہیں۔ دو روز پہلے اسلام آباد کے سیکٹر F6-2 میں لڑکوں کے ماڈل سکول میں ایک تقریب ہوئی، کہنے کو اسلام آباد کا سیکٹر F6-2 امیر ترین لوگوں کا رہائشی علاقہ ہے مگر یہاں کا سرکاری سکول چھ ماہ پہلے بھوت بنگلہ دکھائی دیتا تھا، پچھلے بیس برسوں سے اس کی عمارت بوسیدگی کا رونا روتی تھی، تین بڑے ہالز کو تالا لگا ہوا تھا، بیرونی دیوار بھی نہیں تھی، شاید اس سکول کی خطا یہ تھی کہ اس کے ساتھ ایک کچی بستی جڑی ہوئی ہے، جہاں امیروں کے گھروں میں کام کرنے والے خدمت گار بستے ہیں، چھ ماہ پہلے محی الدین وانی نے یہ سکول دیکھا اور پھر جوائنٹ سیکرٹری کیپٹن آصف بھٹی سے کہنے لگے ’’کیا کچی بستی میں بسنے والے پاکستانی نہیں؟ کیا یہاں کے بچوں کیلئے سکول بند کر دیئے جائیں؟ ایسا نہیں ہو سکتا، تعلیم ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے‘‘۔ بس اس سکول پر کام شروع ہو گیا، دو روز پہلے جب یہ سکول لوگوں نے دیکھا تو اس کے درو دیوار بدل چکے تھے، ایک شاندار عمارت، اس کے اندر خوبصورت لان، صحن میں کھلتے ہوئے پھول، مختلف رنگوں کے شیڈز، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہاں چھ مہینے پہلے بھوت بنگلہ تھا، اب اس سکول میں گوگل کلاس روم بن چکا ہے، اسی سکول میں سمارٹ کلاس رومز بن چکے ہیں، کمپیوٹر لیب، پلمبنگ لیب اور الیکڑک لیب بن چکی ہے، نئی لائبریری کے علاوہ تزئین و آرائش کے ساتھ نئے ہال اور نئے باسکٹ بال کورٹ کے علاوہ کھیلوںکیلئے دیگر سہولیات مہیا کی جا چکی ہیں۔ اس نئی عمارت کا افتتاح پارلیمانی سیکرٹری برائے تعلیم فرح ناز اکبر نے کیا۔ سرکاری مشینری میں اگر ڈھنگ کے افسران ہوں تو وہ بھوت بنگلوں کو خوبصورت عمارتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ محی الدین وانی اس سے قبل گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری تھے، وہاں بھی انہوں نے تعلیم اور صحت پر بہت توجہ دی، اب بھی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے سکولوں پر ان کی خاص نظر ہے، ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات چلتی رہتی ہے کہ بہترین قوم بنانے کیلئے تعلیم بڑی ضروری ہے۔ تعلیم کے وفاقی سیکرٹری تو محی الدین وانی ہیں، اب یہ حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ کم از کم چھ سیکرٹری وانی جیسے ڈھونڈیں، ان چھ سیکرٹریوں کو سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعینات کریں، ان چھ سیکرٹریوں کو دو دن کیلئے اسلام آباد بھیجیں، وہ چھ سیکرٹری محی الدین وانی سے سارے منصوبے ڈسکس کریں، اس دوران وہ اسلام آباد کے سکولوں اور کالجوں کا وزٹ کریں، یہاں سے سیکھیں اور پھر اپنے اپنے صوبوں میں جا کر اس پر عمل کریں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ایک تبدیلی برطانیہ کی طرز پر ہونی چاہیے، جس محلے کا بچہ ہو، وہ اسی محلے کے سکول میں تعلیم حاصل کرے، جس سیکٹر کا یا گاؤں کا رہنے والا ہو، وہ اسی میں تعلیم حاصل کرے۔ اس طرح سکول جانے والے بچے پیدل سکول جایا کریں گے، ہماری سڑکوں پر رش کم ہو جائے گا ورنہ یہاں تو ہر بچے کو چھوڑنے کیلئے گاڑی جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کیلئے سکول بسوں کا اہتمام بھی نہیں کرنا پڑے گا، اس طرح نہ صرف سڑکوں پر رش کم ہو گا بلکہ پیٹرول کی بچت کے ساتھ فضائی آلودگی بھی کم ہو جائے گی، ہر بچے کی تھوڑی سی واک بھی ہو جایا کرے گی جو جسمانی صحت کیلئےضروری ہے۔ پاکستان کے ہر افسر کے پیش نظر رحمان فارس کا یہ شعر ہونا چاہیے کہ۔
ہم تہی ظرف نہیں ہیں کہ محبت کر کے
کسی احسان کے مانند جتانے لگ جائیں