• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانوں کے نام … افضال ریحان
(گزشتہ سے پیوستہ)‎
‎مولانا ظفر علی خان فاؤنڈیشن میں کی گئی تقریر:آپ اور تقریباً سبھی احباب اس سلسلے میں میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ اس وقت پاکستان کا ایشو نمبر ون کوئی اور نہیں، ہماری ڈوبتی بلکہ ہچکولے کھاتی معیشت ہے جب تک ہماری معاشی کشتی بھنور میں ہے ہم کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتے پیٹ میں روٹی نہ ہو، تو کیا کوئی انسان کچھ اور سوچ سکتا ہے؟ بھوکے آدمی کے سامنے آپ سورج چاند کی باتیں بھی کریں گے تو وہ انہیں دو روٹیاں ہی خیال کرے گا حضرت بابا فرید جیسے عظیم صوفی بزرگ نے کیا خوب کہہ رکھا ہے کہ
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریداٹک
جے چھیواں نہ لبھے تے پنجے جاندے مک‎
لہٰذا اس پر تو شاید ہی کسی دوست کو اعتراض یا شکایت ہو کہ اس وقت ہماری پرابلم نمبر ون غربت، بے روزگاری اور معاشی بدحالی ہے جس کا لازمی فوری و بدیہی نتیجہ خوفناک مہنگائی کی صورت ہمارے سامنے ہے بات ایلیٹ کلاس کی نہیں، ہمارے عام آدمی کی ہے مہنگائی نے جس کی زندگی جیرن بنا رکھی ہے۔ ‎سچائی کے ساتھ اگر آپ مجھے حقائق بیان کرنے کی اجازت مرحمت فرما ئیں تو عرض گزار ہوں کہ ہمارے یہاں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان بنانے والوں کا استدلال یہی تھا کہ ہم علیحدہ ملک اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم وہاں اپنے مذہب عقیدے یا اپنی روایات کی مطابقت میں زندگی گزار سکیں انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اسی ہندوستان میں جو مینارٹی مسلم خطے ہیں ان میں بھی تو کروڑوں مسلمان بستے ہیں مسلم میجارٹی خطوں کا تو یہ اصل ایشو تھا ہی نہیں وہاں تو پہلے ہی مسلمانوں کی حکمرانی تھی، پنجاب اور بنگال جو دو بڑے مسلم میجارٹی خطے تھے دونوں کے وزرائے اعظم سر خضر حیات ٹوانہ اور حسین شہید سہروردی اس وقت کے پاپولرمسلمان لیڈر تھے، اس نوع کا اگر کوئی مسئلہ تھا بھی تو وہ ان مسلمانوں کا تھا جو انڈیا کے ہندو میجارٹی اور مسلم مینارٹی خطوں میں آباد تھے جیسے یوپی، بہار آسام، کرناٹک وغیرہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اتنی بڑی ریاست حیدرآباد، آندھرا پردیش وہاں مسلمان محض 13 فیصد تھے لیکن اتنے طویل دور سے نظام آف حیدرآباد کی برکت سے مسلمان سونے کی اس کان پر حکمرانی کرتے چلے آرہے تھے جو پارٹیشن کی صورت میں ان سے چھن گئی یا چھوٹ گئی۔ عرض مدعا یہ ہے کہ نتیجتاً تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت ہی نہیں ہوئی 10لاکھ سے زائد انسان گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالے گئے پارٹیشن سے قبل مسلم حکمرانی کے جو خواب دکھائے گئے تھے ان پر بہت جلد خزاں طاری ہو گئی۔ امارت، ترقی اور خوشحالی کے جو سپنے آنکھوں میں سجائےگئے تھے وہ سب چکنا چور ہو گئے اور اب حالت یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اس مملکت خداداد کو چھوڑ کر یورپ اور امریکا بھاگ جانا چاہتے ہیں اپنی اس تڑپ میں وہ غیر قانونی راہیں اختیار کرنے سے بھی باز نہیں آرہے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے یہ نوجوان اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں آئے روز خبریں آتی ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو یورپ لے جاتی کشتیاں یونان یا مراکو کے قریبی ساحلوں میں ڈوب رہی ہیں اور اتنے نوجوان سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے ہیں مگر پاکستان کو چھوڑ کر یورپ امریکا بھاگ جانے کی تمنائیں آج بھی نسل نو میں زوروں پر ہیں یورپ اور امریکا بھاگ جانے کی آرزو یا حسرت کے پیچھے مذہب کی محبت تو نہیں ہے اگر اس کی محبت میں یہ سب ہوتا تو ان نوجوانوں کا رخ سعودی عرب کی طرف ہونا چاہیے تھا جبکہ یہاں حالت یہ ہے کہ ہمارے جو نوجوان سعودی عرب میں نوکریاں کر رہے ہیں کوششیں ان کی بھی یہی ہوتی ہیں کہ وہ کسی بھی طرح، کسی بھی وقت ویسٹ کا رخ کریں۔ ‎مسئلہ واضح ہوا کہ ایشو عقیدے کا نہیں بہتر معیار زندگی یا معاشی خوشحالی کا ہے اب سوال یہ ہے کہ جب ہم نے بڑے دعوے کرتے ہوئے یہ ملک بنوایا تھا تو پھر ہم نے اس کی معاشی خوشحالی یا بہتر معیار زندگی کا کیا سوچا تھا؟ اپنی نئی نسلوں کیلئے اس کا کیا اہتمام کیا تھا؟ نہیں کیا تو کیوں نہیں؟ اس کے ساتھ ہی مسائل کی نہ ختم ہونے والی ایک فہرست ہمارے سامنے آجائے گی‎،یہ کہ دیکھیں جی اس ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے جو کرسی پر بیٹھتا ہے وہ لوٹ مار کرتے ہوئے اپنی جیبیں بھرنی شروع کر دیتا ہے پھر ہماری سوئی اس کرپشن یا بددیانتی کے ایشو پر اٹکی رہتی ہے جسے اس ملک میں بطور سلوگن اتنا زیادہ استعمال کیا گیا ہے کہ جب بھی اچھی بھلی مستحکم حکومتوں پر شب خون مارنا ہو یا سیاسی بونوں نے اپنا قد کاٹھ بڑا کرنا ہو تو اس گھسے پٹے نعرے کو خوب رگیدا جاتا ہے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین