• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سردیوں کی دھوپ ہو، فروری کا موسم ہو، ہاتھ میں کافی کا مگ ہو، انگلیوں میں سِگار ہو، بس غمِ روزگار نہ ہو، اور غمِ جاناں تو بالکل نہ ہو، ایسے میں کسی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے یا انٹرنیٹ پر ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے دانائی کی بات پڑھنے کو مِل جائے تو بندہ مزید سرور میں آ جاتا ہے۔ آج ایسی تین باتیں پڑھنے کو ملیں۔ پہلے سوئس ماہرِ نفسیات کارل یُنگ کا قول نظر سے گزرا، فرماتے ہیں: ’’لوگ کچھ بھی کر گزرتے ہیں، چاہے وہ کتنی ہی بے سروپا اور بیہودہ بات کیوں نہ ہو، صرف اس لیے کہ انہیں اپنی روح کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘ نفسیات کی بات ہو، یُنگ کا ذکر آئے اور فرائیڈ کا خیال نہ آئے، یہ ممکن نہیں۔ یُنگ اور فرائڈ تقریباًہم عصر تھے لیکن انسانی نفسیات کے بارے میں اُن کی اَپروچ میں فرق تھا، مثلاً فرائیڈ کے نزدیک لاشعور بنیادی طورپر تِشنہ خواہشات، خاص طور پر جنسی جبلّتوں کا مجموعہ ہے اور بچپن کے تجربات اور دبی ہوئی یہ نفسیاتی تکلیفیں انسان کی شخصیت کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں جبکہ یُنگ کا کہنا تھا کہ انسان کی شخصیت کی نشوونما کے محرکات اِس سے بڑھ کر ہیں جس میں شخصیت کا روحانی طور پر پروان چڑھنا بے حد اہم ہے۔ خوابوں کی تعبیر میں بھی دونوں کے خیالات مختلف تھے، فرائیڈ نے خوابوں کو ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا، جبکہ یُنگ نے انہیں لاشعور کے پیغامات کہا جو فرد کی ذاتی نشوونما میں مدد دیتے ہیں۔ فرائیڈ، مذہب اور اِس سے جُڑی ہوئی داستانوں کو محض نفسیاتی فریب سمجھتا تھا جبکہ یُنگ انہیں انسانی نفسیات کیلئے ناگزیر قرار دیتا تھا۔ معافی چاہتا ہوں موازنہ کچھ ثقیل ہو گیا، جس طرح فرائیڈ نے کم و بیش ہر خواب کی تعبیر کو جنسی جبلّتوں کا شاخسانہ قرار دیا ہے، اُسے پڑھ کر ایک ناقابل اشاعت جملہ یاد آ گیا کہ ’’اگر فرائیڈ کی یہ تشریح درست مان لی جائے تو پھر ہر بندہ ہی ....‘‘ خیر جانے دیں، ہم فی الحال یُنگ سے کام چلا لیتے ہیں۔

بعض اقوال ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے سوچنے سمجھنے کا محور ہی تبدیل کر دیتے ہیں، ظاہر ہے کہ آپ زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق تو نہیں چلا سکتے مگر دانائی کے یہ قول کم از کم زندگی سے متعلق آپ کی فِکر ضرور بدل دیتے ہیں اور یُنگ کا یہ قول ایسا ہی ہے۔ میں نے کئی مرتبہ یہ قول پڑھا اور ہر مرتبہ لُطف لیا۔ لوگ روزانہ ایسی باتیں کرتے ہیں جو بے معنی ہوتی ہیں، تضادات کا مجموعہ ہوتی ہیں اور اُن کے اپنے فعل کے برعکس ہوتی ہیں، ایک اندھے کو بھی نظر آ رہا ہوتا ہے کہ جو شخص یہ بات کر رہا ہے اُسے خود اچھی طرح علم ہے کہ وہ درست نہیں کہہ رہا، ہم روزانہ منافقت کے یہ مناظر دیکھتے ہیں، خاص طور سے جو جتنا طاقتور ہوتا ہے وہ اتنا ہی منافق ہوتا ہے، مگر سمجھ نہیں پاتے کہ کوئی اِس قدر ڈھٹائی سے یہ کام کیسے کر سکتا ہے، مگر یُنگ نے ایک جملے میں بات صاف کر دی کہ دراصل یہ لوگ اپنی روح کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگوں کو یہ عام سی بات لگے مگر میں نے جب سے یہ پڑھا ہے تب سے لوگوں کی حرکتوں پر کُڑھنا چھوڑ دیا ہے، پہلے میں اِس قسم کی باتوں پر خواہ مخواہ جِزبِز ہوتا تھا لیکن اب سکون میں ہوں اور کارل یُنگ کا شکرگزار ہوں۔

دوسرا قول پاؤلو کوئلو کا ہے۔ کہتے ہیں: ’’آپ کی زندگی میں ایک دن ایسا آئے گا جب آپ بیدار تو ہوں گے مگر آپ کے پاس اُن کاموں کیلئے مزید وقت نہیں ہوگا جو آپ ہمیشہ کرنا چاہتے تھے۔ سو جو کرنا ہے ابھی کر ڈالیے۔‘‘ اِس قول کی تشریح کی ضرورت نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اتنی سادہ سی بات بھی ہمیں سمجھ نہیں آتی اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم زندگی کے جھمیلوں میں اِس قدر الجھے رہتے ہیں کہ ہر کام کو کل پر ڈالتے رہتے ہیں اور بالآخر وہ ’’کل‘‘ بھی آ جاتا ہے جس دن زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اُن غریبوں کی بات کیا کریں جو بیچارے دو وقت کی روٹی کی خاطر سارا دن چکی پیسنے پر مجبور ہیں، اُن کے پاس تو یہ عیاشی ہی نہیں کہ وہ فلسفیوں اور لکھاریوں کے اقوال پڑھ کر سر دھُن سکیں، مسئلہ تو اُن لوگوں کا ہے جن کے پاس وسائل بھی ہیں مگر وہ اپنی زندگی ایک کے بعد ایک ’’مقصد‘‘ حاصل کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اور زندگی کا یہ ضیاع اِس قدر غیر محسوس انداز میں ہوتا ہے کہ بندے کو پتا ہی نہیں چلتا اور پردے پر منظر بدل جاتا ہے۔

تیسری ایک جاپانی کہاوت ہے: ’’اگر آپ غلط ٹرین پر سوار ہو جائیں تو فوراًقریبی اسٹیشن پر اُتر جائیں کیونکہ اترنے میں آپ جتنی دیر لگائیں گے، واپسی کا سفر اتنا ہی مہنگا ہوگا۔‘‘ مجھے لگتا ہے کہ یہ کہاوت اُن بے ڈھنگے شادی شدہ جوڑوں کو سنانی چاہیے جو تمام عمر اِس چکر میں گزار دیتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ گزارا کر لیں گے۔ حالانکہ گزارا کرنا تو دور کی بات اُن کی زندگی اُلٹا جہنم بن جاتی ہے اور جب انہیں یہ احساس ہوتا ہے اُس وقت تک ٹرین سے اترنے کا آپشن ہی ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ کاروباری معاملات میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے، بعض لوگ ایک ناکام کاروبار کو کامیاب بنانے کے لیے اُس میں پیسے جھونکتے رہتے ہیں یا وہ کسی غلط فیصلے کو درست ثابت کرنے کی خاطر وقت اور پیسہ دونوں برباد کرتے رہتے ہیں اور جب انہیں پتا چلتا ہے کہ وہ کیا حرکت کر بیٹھے ہیں تو اُس وقت تک واپسی کا ٹکٹ اِس قدر مہنگا ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ پھر فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اب کیا کریں۔ انگریزی میں اسے The Sunk Cost Fallacy بھی کہتے ہیں۔

بعض اوقات دانش مندی کی ایک بات بھی کسی کی زندگی بدل سکتی ہے، ہم انہیں محض کتابی باتیں کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے، اکثر ایسا ہوا ہے کہ کسی فلسفی کی بات نے میری زندگی کا زاویہ نگاہ ہی تبدیل کر دیا ہو۔ جس طرح کچھ باتیں زندگی بدل دیتی ہیں اسی طرح کچھ کتابیں بھی ایسی ہیں جنہیں آپ اِس درجہ بندی میں شامل کر سکتے ہیں، میں کوشش کروں گا کہ ایسی پانچ سات کتابوں کی فہرست بنا کر پیش کروں جو ہر اُس شخص کو پڑھنی چاہئیں جو اپنی زندگی میں بدلاؤ لانا چاہتا ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں اور اُس میں بدلاؤ نہیں چاہتے تو پھر دوسرے لوگوں کی رہنمائی کریں کہ وہ اِس قسم کی زندگی کیسے گزار سکتے ہیں، یہ صدقہ جاریہ ہوگا۔

تازہ ترین